برسلز میں ترکی کی درخواست پر بلائے گئے 28 سفیروں کے ایک ہنگامی اجلاس کے بعد نیٹو نے کہا ہے کہ وہ ترکی کے ساتھ کھڑی ہے۔ یہ اجلاس ترکی کی طرف سے ایک روسی طیارہ مار گرائے جانے کے بعد بلایا گیا۔
تاہم ترکی کے نیٹو اتحادیوں نے کشیدگی کم کرنے پر اتفاق کیا ہے اور شام اور ترکی کی فضائی حدود میں خطرات کو کم کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ نیٹو نے ترکی کی طرف سے روسی طیارہ مار گرانے کی کارروائی کی خصوصی توثیق نہیں کی۔
اجلاس میں ترکی کے حکام نے فلائٹ ڈیٹا پیش کیا جس سے ان کے بقول ثابت ہوتا ہے کہ روسی طیارے نے اس کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی، مگر روس نے اس بعد کی سختی سے تردید کی ہے۔
روس کا کہنا ہے کہ اس کا جنگی جہاز شمالی لاذقیہ میں پہاڑوں میں بمباری کر رہا تھا جہاں چیچن جنگجو اسد مخالف باغی ملیشیاء کے ساتھ مل کر لڑ رہے ہیں۔
نیٹو کے سیکرٹری جنرل جین سٹولٹنبرگ نے ’’پر امن رہنے اور کشیدگی کم کرنے‘‘ کا کہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالات دانشمندی کا تقاضا کرتے ہیں اور ’اس واقعے سے پیدا ہونے والی کشیدگی کو دور کرنے اور آئندہ اس قسم کے واقعات سے بچنے کے طریقہ کار کو بہتر بنانے‘‘ کے لیے روس اور ترکی کی حوصلہ افرائی کی۔
متعدد یورپی سفارتکاروں نے اجلاس کے بعد وائس آف امریکہ کو بتایا کہ نیٹو کی توجہ مستقبل میں ایسے واقعات کو روکنے اور خطرے کم کرنے پر ہے۔
انہیں سب سے زیادہ خدشہ اس بات کا ہے کہ سرد جنگ کے بعد پہلی مرتبہ نیٹو کے رکن ملک کی جانب سے روسی طیارہ مار گرائے جانے کے بعد روس جوابی کارروائی کے طور پر شام میں داعش کے خلاف بمباری کرنے والے کسی ترک طیارے کو مار گرانے کا حکم دے سکتا ہے۔
ایک برطانوی فوجی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ’’اگر ایسا ہو تو ہم جلد ہی رد عمل اور جوابی رد عمل کے چکر میں پھنس سکتے ہیں۔ مگر میرا خیال ہے کہ ماسکو بھی یہ نہیں چاہتا اور سفارتی تلخ بیانی ختم ہونے کے بعد ہمیں ترکوں اور روسیوں دونوں کے لیے زندگی بچانے کا فارمولا چاہیئے ہو گا۔‘‘
یورپی سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ جب سے روس نے شام میں فضائی کارروائیاں شروع کی ہیں انہیں ایسے کسی واقعے کا ہی خدشہ تھا۔ امریکہ اور نیٹو حکام کا اصرار ہے کہ روس داعش کی بجائے صدر بشار الاسد کی مخالف فورسز کے خلاف کارروائیاں کر رہا ہے۔
ترکی کی سرحد کے قریب شام کی فضائی حدود میں اتحادی، شامی، ترک اور روسی بمبار جہازوں کا رش ہے۔ ستمبر میں شام میں کارروائیاں شروع کرنے کے بعد روسی طیاروں نے شمالی شام میں سینکڑوں پروازیں کیں۔
یورپی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس واقعے سے شام کی خانہ جنگی کے حل کے لیے ویانا میں ہونے والے مذاکرات میں امریکہ کی سفارتی کوششوں پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ سفارتکار شام میں سیاسی تبدیلی کے لیے روس کے ساتھ اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس سے قبل بھی ترکی روس اور شام کر کو ترک فضائی حدود کی خلاف ورزی پر بارہا تنبیہ کر چکا ہے۔ انقرہ کے بقول گزشتہ ماہ ترک طیاروں نے ملک کی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر ایک روسی جنگی جہاز کو روکا جبکہ اس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس کے جہازوں کو ایک روسی طیارے نے ہراساں کیا۔
نیٹو نے اکتوبر میں بھی ایک انتباہ جاری کیا تھا جس میں ’’روسی طیاروں کی طرف سے ترک فضائی حدود کی ناقابل قبول خلاف ورزی‘‘ کی مذمت کی گئی تھی۔