ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے بدھ کو کہا کہ ان کا ملک روس کے ساتھ کشیدگی نہیں چاہتا بلکہ جب ترک جنگجو طیاروں نے روسی جہاز کو مار گرایا تو صرف اپنی سرحدوں کا دفاع کر رہا تھا۔
استنبول میں ایک تقریب سے خطاب میں اردوان نے کہا کہ طیارہ شام میں گرا مگر جب اسے مارا گیا تو یہ ترکی کی حدود میں تھا۔ دیگر ترک حکام کا کہنا ہے کہ طیارہ 17 سیکنڈ تک ترک فضائی حدود کے اندر دو کلومیٹر دو تک رہا اور اس کی فورسز نے طیارے پر مار کرنے سے پہلے 10 مرتبہ اسے انتباہ کیا۔
مگر روس کا اصرار کے کہ طیارہ شامی حدود سے باہر نہیں گیا۔
اس سے قبل امریکہ کے صدر براک اوباما اور ان کے ترک ہم منصب رجب طیب اردوان نے روس کے ساتھ کشیدگی کو کم کرنے اور مستقبل میں تناؤ کا باعث بننے والے واقعات سے بچنے پر اتفاق کیا تھا۔
ترکی کی طرف سے اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر ایک روسی لڑاکا طیارے کو مار گرایا تھا جس پر روس نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
طیارہ مار گرائے جانے کے بعد چند گھنٹوں بعد صدر اوباما اور صدر اردوان کے درمیان ٹیلی فون پر گفتگو ہوئی۔
وائٹ ہاوس کی طرف سے منگل کو دیر گئے جاری کیے گئے ایک بیان میں بتایا گیا کہ دونوں رہنماؤں نے شام میں سیاسی حل کو فروغ دینے اور داعش کے خلاف لڑائی میں بین الاقوامی حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔
بیان میں امریکہ کی طرف سے ترکی کو اپنی فضائی حدود کے تحفظ کے حق کی حمایت کا اعادہ بھی کیا گیا۔
ترک حکام کا کہنا ہے کہ انھوں نے روسی لڑاکا طیارے کو نشانہ بنانے سے قبل انتباہ جاری کیا لیکن طیارے نے اس کی پرواہ نہیں کی جس پر یہ کارروائی کی گئی۔
تاہم روس کا کہنا ہے اس کا طیارہ ترکی کی فضائی حدود میں داخل نہیں ہوا تھا اور صدر ولادیمر پوتن نے ترکی کے اس اقدام کو "پیٹھ میں چھرا گھونپنا" قرار دیا۔
روس نے رواں سال ستمبر میں شام میں اپنی فضائی کارروائی شروع کی تھیں جن کے بارے میں امریکہ اور اس کے اتحادی باور کرتے ہیں کہ وہ داعش کے شدت پسندوں کی بجائے صدر بشار الاسد کے مخالفین کو نشانہ بنا رہا ہے۔ ماسکو اس الزام کو مسترد کرتا ہے۔
امریکہ یہ کہتا ہے کہ روس کو داعش کے خلاف لڑائی میں مربوط انداز میں ساتھ دینا چاہیے کیونکہ عالمی امن کے لیے اس خطرے کو شکست دینے لیے منظم کوششوں کی ضرورت ہے۔