سندھ حکومت نے کراچی کے علاقے ملیر کے قریب ایک مبینہ پولیس مقابلے میں ایک قبائلی شخص نقیب اللہ کی ہلاکت کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ افسر تعینات کر کے سات روز میں انکواری مکمل کرنے کا حکم دیا ہے۔
مبینہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے نقیب اللہ کے بارے میں سندھ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ کئی اہم کیسز میں مطلوب تھا۔ پولیس کے مطابق نقیب اللہ کا اصل نام نسیم اللہ تھا اور اس کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے تھا۔
ایس ایس پی راو انوار نے وائس ٓف امریکہ کو بتایا کہ نسیم اللہ نے دہشتگردی کی تریبت میران شاہ سے حاصل کی تھی۔ نسیم دو پولیس اہل کاروں کے قتل کے کیس میں بھی مطلوب تھا۔ اس نے تحریک طالبان کے کمانڈر شیر محسود کے کہنے پر مچھر کالونی کے علاقے میں تحریک طالبان کو منظم کیا۔ یہی نہیں بلکہ پاک فوج سے تعلق کے شبہے میں اپنے ہی رشتے دار اعجاز محسود کو بھی قتل کیا۔ ایس ایس پی کے مطابق نسیم نے داود محسود کے ساتھ مل کر اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ مل کر فوجی قافلے کو بھی نشانہ بنایا تھا۔ ملزم بے نظیر بھٹو کی 18 اکتوبر کی ریلی میں دھماکے کا ماسٹر مائنڈ وہاب کا قریبی ساتھی بھی بتایا جاتا ہے۔
نقیب اللہ محسودکے قریبی رشتہ داروں اورقبائلیوں نے ان الزامات کومستردکردیاہے۔ نقیب اللہ محسودکے ایک قریبی رشتہ دارمبارک شاہ نے وائس آف امریکہ کوتفصیلات بتاتے ہوئے کہاکہ وہ2008سے کراچی میں مقیم تھا۔ شروع میں انہوں نے کراچی کے دومختلف سٹیل ملزمیں کام کیاتھا۔ تاہم چند مہینے قبل انہوں نے کپڑے کی دکان کھولی لی تھی۔ مبارک شاہ نے کہاکہ نقیب اللہ کے دیگررشتہ داروں بشمول بیوی بچے اور والدین ٹانک ہی میں رہائش پذیر ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
پشاور،ڈیرہ اسماعیل خان اوردیگرشہروں اورعلاقوں میں ہونے والے مظاہروں میں مظاہرین نے نقیب اللہ کے پراسرارقتل کی شدیدالفاظ میں مذمت کی اورحکومت سے ذمہ دار اہل کاروں کے خلاف فوری کارروائی کرنے کا مطالبہ بھی کیاگیا۔ پشاور میں ہونے والے مظاہرے سے دیگرمقررین کے علاوہ محسن داوڑنے بھی خطاب کیا۔
قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ تنظیم کے سربراہ شوکت عزیزنے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نقیب اللہ محسودکوایک پرامن شہری قرار دیا۔
دوسری جانب واقعے کے خلاف احتجاج میں اضافے کے بعد سندھ حکومت نے بھی تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔ وزیر داخلہ سندھ سہیل انور سیال کے ترجمان کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق ڈی آئی جی کراچی جنوبی کو انکوائری افسر مقرر کرکے ان سے سات روز میں تحقیقات مکمل کرنے کا کہا گیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف نے نوجوان نقیب محسود کے مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کے خلاف قراداد سندھ اسمبلی میں جمع کرا دی ہے۔ قراداد سندھ اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر خرم شیرزمان نے جمع کرائی جس میں کہا گیا کہ کراچی کے علاقے ملیر میں فاٹا کے نوجوان نقیب اللہ محسود کو پولیس مقابلے میں مار دیا گیا۔ آئے روز پولیس مقابلوں میں بعض بے گناہوں کو مارا جا رہا ہے۔ نقیب اللہ محسود کے قتل کی عدالتی تحقیقات کرائی جائے ۔
ایس ایس پی راو انوار طالبان سمیت دیگر کالعدم شدت پسند تنظیموں سے مقابلے کے حوالے سےشہرت رکھتے ہیں۔ صرف اسی سال کے پہلے 16 روز میں ان کی سربراہی میں تین مختلف آپریشنز کے دوران ایک درجن سے زائد مبینہ دہشت گرد مارے جا چکے ہیں جو مہران ائیربیس اور کراچی ائیرپورٹ سمیت دیگر اہم حملوں میں مطلوب تھے۔ ان کے مخالفین ان مبینہ دہشت گردوں کو ماورائے عدالت قتل کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔
پشاور سے وائس آف امریکہ کے نمائندے شمیم شاہد نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ نقیب اللہ کی نعش خیبرپختونخواکے جنوبی شہر ٹانک پہنچادی گئی ہے اورنمازجنازہ کے بعدان کی تدفین کی گئی ہے۔