پولیس نے ننکانہ صاحب میں جمعے کو سکھوں کے روحانی پیشوا بابا گرونانک کے جنم استھان کے باہر نفرت انگیز تقریر کرنے کے الزام میں عمران چشتی کو گرفتار کر لیا ہے۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع ننکانہ صاحب کے ایک اعلیٰ پولیس افسر نے سکھوں کے خلاف نفرت نگیز تقریر کرنے والے شخص عمران چشتی کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ عمران نامی شخص نے شہر کا امن خراب کرنے کی کوشش کی۔
ان کے مطابق پولیس نے ملزم کے خلاف مقدمہ درج کرکے گرفتار کر لیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ننکانہ صاحب کے دو رہائشی افراد میں لین دین کا آپس کا معاملہ تھا جو اب کافی حد تک ختم ہو چکا ہے۔ شہر میں مکمل طور پر امن ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رکن پنجاب اسمبلی اور ہیومین رائٹس کمیٹی پنجاب کے پارلیمانی سیکریٹری مہندر پال سنگھ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ عمران چشتی نے ننکانہ صاحب کا امن خراب کرنے کی کوشش کی جسے پولیس نے مقدمہ درج کر کے گرفتار کر لیا ہے۔
ان کے بقول اُسے وہ سزا دی جائے گی جس کا وہ قانون کے تحت جرم کا مرتکب ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ننکانہ صاحب کے ایک خاندان کے ایک فرد نے پورے شہر کا امن برباد کر دیا ہے۔ مسلمان اور سکھ جو بہت محبت اور امن کے ساتھ پاکستان میں رہتے ہیں اُس دوستی پر اُس نے داغ لگانے کی کوشش کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو بہت پیار ملتا ہے جس کا مشاہدہ کرتار پور اور ننکانہ صاحب جا کر لوگوں نے خود بھی کیا۔ عمران چشتی نے جن بھی لوگوں کا دل دکھایا ہے اُن کی داد رسی ضرور ہو گی۔
جمعہ کی شام ننکانہ صاحب میں معمولی جھگڑے پر مشتعل ہجوم نے گردوارہ ننکانہ صاحب کے باہر تقریباً چار گھنٹے تک مظاہرہ کیا۔
اس احتجاج کی ویڈیو سوشل میڈیا وائرل ہو گئی جس میں عمران چشتی نامی شخص کو نفرت انگیز تقریر کرتے اور دھمکیاں دیتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔
جس پر بھارت کی حکومت نے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان سے سکھ برادری کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے نے ایک بیان میں بھارت کے بیانیے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بھارت ننکانہ صاحب اور پشاور سے متعلق غلط پروپیگنڈا کر رہا ہے۔
بیان میں بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے اقلیتوں کو ہندو انتہا پسندوں کی دہشت گردی سے محفوظ رکھنے کا مطالبہ کیا۔
دفتر خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا کہ بھارتی حکومت نے ننکانہ صاحب کے واقعے کو بین المذاہب مسئلہ قرار دینے کی کوشش کی۔ گردوارہ ننکانہ صاحب بالکل محفوظ ہے جب کہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
بیان میں کہا گیا کہ بی جے پی حکومت بھارت میں جاری انسانی المیے اور اقلیتوں کو ہندو انتہا پسندوں کی دہشت گردی سے محفوظ کرنے پر توجہ مرکوز کرے تو بہتر ہوگا۔
دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں تمام اقلیتیں محفوظ ہیں، ننکانہ صاحب اور پشاور میں مقدس مقامات کی بے حرمتی اور انتشار کے دعوے جھوٹے ہیں۔
بی جے ہی کی حکومت کے ردعمل اور بھارتی میڈیا میں ننکانہ صاحب کے واقعے پر خبریں سامنے آنے پر پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا کہ ننکانہ صاحب میں رونما ہونے والا واقعہ ان کی سوچ کی نفی کرتا ہے اور اس کے ذمہ داروں کو پولیس اور عدلیہ سمیت حکومت سے کسی قسم کی رعایت یا تحفظ نہیں ملے گا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ننکانہ صاحب کے قابل مذمت واقعے اور پورے ہندوستان میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف جاری حملوں میں نمایاں فرق ہے۔
ننکانہ صاحب کے رہائشیوں کے مطابق عمران چشتی محمد احسان نامی شخص کے بھائی ہیں۔ محمد احسان پر ایک سکھ لڑکی جگجیت کور کو اغوا کرنے کا الزام ہے۔
اطلاعات کے مطابق گردوارہ جنم استھان کے سامنے چائے کے ایک کھوکھے پر چار افراد چائے پی رہے تھے۔ جنہوں نے محمد احسان کے بارے میں بات کرنی شروع کی تھی۔ جو آہستہ آہستہ تلخ کلامی میں اور بعد میں جھگڑے میں بدل گئی تھی۔
میڈیا میں سکھ لڑکی کی شادی کی خبریں آنے اور سکھ خاندان کے احتجاج کے بعد محمد احسان کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔
ننکانہ صاحب کے پولیس حکام کے مطابق جھگڑے کی بنیاد جگجیت کور اور محمد احسان کی شادی ہے۔
حکام کا کہنا تھا کہ جگجیت کور کا نیا نام عائشہ بتایا جاتا ہے۔ جس نے لاہور کی مقامی عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے مذہب اسلام قبول کر چکی ہے۔ اُسے کسی نے اغوا نہیں کیا۔ وہ اپنے شوہر کو نہیں چھوڑنا چاہتی اور نہ ہی اپنے والدین کو۔
ننکانہ صاحب میں گردوارے کے سامنے احتجاج کا واقعہ ذرائع ابلاغ میں آنے کے بعد پاکستان کے وزیر داخلہ برگیڈئیر ریٹائرڈ اعجاز شاہ نے ننکانہ صاحب کا دورہ کیا۔
ننکانہ صاحب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعجاز شاہ نے کہا تھا کہ ایک ذاتی جھگڑے کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ جسے مقامی انتظامیہ کی بروقت کارروائی نے ناکام بنا دیا ہے۔
خیال رہے کہ ننکانہ صاحب کے واقعے کے اگلے ہی روز پشاور کے نوجوان کو نامعلوم افراد نے قتل کر دیا تھا۔