آرمینیا اور آذربائیجان میں جمعرات کو بھی متنازع علاقے ناگورنو کاراباخ میں شدید لڑائی جاری رہی۔ فریقین نے ایک دوسرے پر حملوں کے الزامات عائد کیے ہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کی رپورٹ کے مطابق لڑائی میں شدت آنے کے ساتھ ساتھ اس میں ترکی اور روس کے شامل ہونے کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے۔
آذربائیجان کی وزارت دفاع نے آرمینیا پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے آذربائیجان میں کئی مقامات پر بیلیسٹک میزائل داغے ہیں۔ ان میزائل حملوں میں آذربائیجان کے شہروں قبالا، سیاہ زن اور کردامیر کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ تمام نوگورنو کاراباخ کے جنگ زدہ علاقے سے بہت دور ہیں۔
وزارتِ دفاع نے اپنے بیان میں ان حملوں میں ہلاکتوں یا دیگر نقصان کی تفصیلات جاری نہیں کیں۔
دوسری جانب آرمینیا نے آذربائیجان کے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے اسے دروغ گوئی قرار دیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
واضح رہے کہ ناگورنو کاراباخ سوویت یونین کا ایک خود مختار علاقہ تھا۔ لیکن سوویت یونین کے خاتمے کے بعد آرمینیا سے تعلق رکھنے والے علیحدگی پسندوں نے 1990 کی دہائی میں خون ریز جنگ کے بعد ناگورنو کاراباخ کے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔
آرمینی اکثریت والے اس علاقے نے 1988 میں آزادی کا اعلان کیا تھا جس کے نتیجے میں آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جنگ چھڑ گئی تھی جو چھ سال جاری رہی۔
یہ جنگ 1994 میں ختم ہوئی جس کے بعد سے بین الاقوامی برادری کی علاقے میں امن قائم کرنے کی کوششیں بارہا ناکام رہی ہیں۔
90 کے عشرے سے جاری اس تنازع میں اب تک 30 ہزار لوگ مارے جا چکے ہیں۔ تجزیہ کار دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ لڑائی کو گزشتہ دو دہائیوں کی سب سے شدید لڑائی قرار دے رہے ہیں۔
روس نے فریقین میں دوبار ثالثی کے ذریعے حالیہ دنوں میں جنگ بندی کرائی ہے۔ البتہ یہ جنگ بندی اطلاق کے فوری بعد ہی ختم بھی ہو گئی۔ اور آرمینیا اور آذر بائیجان نے ایک دوسرے پر حملوں کے الزامات عائد کیے۔ جنگ بندی ختم ہوتے ہی دونوں جانب سے بھاری توپ خانے، راکٹوں اور ڈرون سے حملوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
آذر بائیجان کے صدر الہام علیوف کہہ چکے ہیں کہ آرمینیا کی فورسز کو لازمی طور پر ناگورنو کاراباخ کا علاقہ خالی کرنا ہو گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے زور دے کر کہا تھا کہ تین دہائیوں میں عالمی ثالثی کے باوجود تنازع حل نہ ہونے کے بعد آذر بائیجان کو اختیار حاصل ہے کہ وہ طاقت کے ذریعے اس علاقے کو حاصل کرے۔
واضح رہے کہ روس، امریکہ اور فرانس نے، جو اس تنازع کے حوالے سے قائم منسک گروپ کے مشترکہ سربراہ ہیں، اس تنازع کو سیاسی طور پر حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم انہیں اس میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
آرمینیا کے وزیرِ اعظم نیکول پاشینیان نے بدھ کو کہا تھا کہ آذربائیجان کے ناگونو کاراباخ میں فوری ہتھیار ڈالنے کے جارحانہ مؤقف کے باعث سفارت کاری کی گنجائش کم ہو گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب ایسا کوئی راستہ باقی نہیں ہے کہ ناگونو کاراباخ کا معاملہ سفارت کاری سے حل ہو سکے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ آرمینیا، ناگونو کاراباخ کے بغیر مکمل نہیں ہے۔
واضح رہے کہ آرمینیا کے رہنما الزام عائد کر رہے ہیں کہ ترکی نے آذر بائیجان کو ناگونو کاراباخ پر حملے اور جنگ بندی کے خاتمے پر اکسایا ہے۔
ترکی بھی، جو کہ نیٹو کا رکن ہے، اپنے اتحادی آذر بائیجان کے اس مؤقف کی بھر پور حمایت کرتا ہے کہ وہ طاقت کے ذریعے اس خطے کو حاصل کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ترکی سفارت سطح پر بھی اس کی مدد کر رہا ہے۔
SEE ALSO: پاکستان کا ایک بار پھر آذربائیجان کی حمایت کا اعادہ، فوج بھیجنے کی تردیدترکی نے حالیہ برسوں میں آذر بائیجان کو طویل فاصلے پر ہدف کو نشانہ بنانے والے راکٹ اور ڈرون فراہم کی ہیں۔ ان میزائلز اور ڈرونز کو اس لڑائی میں آذر بائیجان کی آرمینیا پر برتری بھی قرار دیا جا رہا ہے۔
ترکی کے نائب صدر فواد اوقطائی نے بدھ کو خبردار کیا تھا کہ اگر آذر بائیجان نے درخواست کی تو ترکی اپنی فوج آذر بائیجان بھیجنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرے گا۔
نشریاتی ادارے 'سی این این ترک' کو ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ آذر بائیجان اور ترکی کے فوجی تعاون کے معاہدے موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر آرمینیا نے ناقابلِ قبول اقدامات کیے اور آزر بائیجان نے ترکی سے فوج بھیجنے کی درخواست کی تو ترکی فوج بھیجنے میں نہیں ہچکچائے گا۔
دوسری جانب آرمینیا میں روس کا فوجی اڈہ موجود ہے۔ جب کہ روس بھی اپنے اتحادی آرمینیا کا تحفظ کرنے کا پابند ہے۔ البتہ اب تک روس نے اس تنازع میں متوازن حکمتِ عملی اختیار کی ہے۔ ماسکو نے آذر بائیجان کے ساتھ بھی اچھے تعلقات برقرار رکھے ہیں۔ جب کہ ترکی سے بھی کسی قسم کے ٹکراؤ سے گریز کیا ہے۔
روس کے سیاسی رہنماؤں نے ماسکو پر زور دیا ہے کہ روس کو آرمینیا کی حفاظت کے لیے فوجی مداخلت کرنی چاہیے۔ البتہ ماسکو نے اس مطالبے کو رد کر دیا ہے۔
روس کے صدر ولادی میر پوٹن کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اس تنازع کے پر امن حل کے علاوہ کوئی متبادل نہیں ہے۔