’’اسلام میں آپ کو حق ہے کہ آپ اپنی مرضی سے شادی کریں۔ یہ کیا بات ہوئی کہ ایک بچی نے اپنا حق استعمال کیا تو آپ نے اٹھا کر کلہاڑی یا بندوق سے اس کا گلا گھونٹ دیا۔۔۔ یہ کیا غصہ ہے معاشرے میں کہ آپ اپنی بیوی کو جلا کر راکھ کر دیتے ہیں؟‘‘
یہ ہیں نفیسہ شاہ، جو پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں تیزی کا ذکر کر رہی ہیں۔ پاکستانی اور غیر ملکی میڈیا میں سال 2016ء کے موسم گرما میں غیرت کے نام پر قتل کے تین واقعات کی بازگشت رہی۔ لیکن، ’ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، گزشتہ سال کے دوران کم از کم 300 عورتیں پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کی گئیں۔ اس سال صرف جنوری کے مہینے میں اب تک کم از کم 2 ایسے واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔
نفیسہ شاہ کہتی ہیں کہ ’’یہ واقعات کسی بلوچ یا پشتون قبیلے یا سندھ کے کسی گاؤں میں نہیں ہوئے۔ یہ کراچی، لاہور، ملتان جیسے شہروں میں ہو رہے ہیں۔ اس لئے ہم یہ کہیں کہ یہ غیرت کے نام پر ہو رہے ہیں یا کسی اور ثقافتی لبادے میں ہو رہے ہیں۔ ہمیں اس سارے عمل کو مسترد کرنا چاہئے۔ یہ عورتوں کے خلاف تشدد ہے، یہ انسانیت کے خلاف تشدد ہے۔ اور ایسے ہر کیس کو اسی طریقے سے نمٹانا چاہئےکہ یہ ایک خون ہے، اور کسی بھی طرح کا خون جان بوجھ کر کیا گیا ہے، تو اس میں صلح کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔‘‘
پاکستان میں لوگ نفیسہ شاہ کو رکن قومی اسمبلی کے طور پر جانتے ہیں۔ لیکن انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری ایک ایسے مسئلے پر تحقیقی مقالہ لکھ کر حاصل کی ہے جسے ’غیرت کے نام پر قتل‘ کہا جاتا ہے۔ یہ تحقیقی مقالہ، حال ہی میں ان کی کتاب Honour and violence’ ‘' کے نام سےامریکہ اور برطانیہ میں شائع ہوا ہے۔
نفیسہ شاہ ایسے قتل کو ’غیرت‘ یا ’عزت‘ کے نام پر کیا جانے والا تشدد نہیں، صرف قتل سمجھتی ہیں۔ جس کی مثال، ان کے بقول، پاکستان کی کسی ’روایت‘ میں نہیں ملتی۔ نفیسہ تسلیم کرتی ہیں کہ رسوم معاشرے سے الگ نہیں ہوتیں. لیکن, ان کا کہنا ہے کہ ان میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔
’’میرا پی ایچ ڈی کا تھیسس اسی بارے میں تھا کہ آیا ان رسوم میں کوئی نیا، ماڈرن عنصر تو شامل نہیں ہوگیا؟ کیونکہ، یہ ایک طرح سے اپنی مرضی کی ایجاد ہے۔ لوگ غیرت کے نام پر قتل کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔ جب آپ کہتے ہیں غیرت کے نام قتل، تو معاشرہ چپ ہو جاتا ہے۔ قاتل اس کی آڑ میں جرائم کرتے ہیں اور پھر اصل مسئلہ، بد قسمتی سے، یہ نہیں کہ آپ قبائلی انداز میں جرگہ لگا کر فیصلہ کریں۔ زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ عدالتوں کے طرز عمل میں بھی ایک نرمی ہے کہ ہاں جی ان کا چونکہ غیرت کا مسئلہ ہے، اس لئے یہ آپس میں صلح کر لیں‘‘۔
نفیسہ شاہ کہتی ہیں کہ 90 کی دہائی کے پاکستان میں اسلام کے نام پر متعارف کروایا گیا قصاص اور دیت کا قانون ’’جلد بازی میں پاس کیا گیا تھا‘‘۔ جس میں دیئے گئے اختیارات کے مطابق , ’’جس کی بچی کا خون ہوتا ، اس کے وارث کو قانون کی طرف سے اجازت دی گئی کہ یا تو وہ قصاص لیں، یا پھر دیت کے بدلے معاف کر دیں یا صلح کر لیں۔یہ قانون اسلام کے نام پر تو آیا تھا۔ لیکن غیر اسلامی ہے کیونکہ اسلام میں عورتوں کو حقوق دیئے گئے ہیں۔‘‘
نفیسہ کے بقول، ’’کسی بھی جدید قوم میں جرائم کی سزا دینے کا واحد اختیار ریاست کے پاس ہوتا ہے۔ وہ اگر یہ اختیار کسی فرد واحد، والد یا والدہ کو دے دیں تو ایسے خون جس خاندان میں ہوتے ہیں، وہاں ایک مارتا اور دوسرا صلح کر لیتا ہے، اور یہی خرابی اس قانون سے پیدا ہوئی۔‘‘
پاکستانی پارلیمنٹ نے سال 2016ء میں ایک نئے قانون کے تحت غیرت کے نام پر قتل کے کیس میں اہلخانہ کی طرف سے قاتل کو معاف کرنے کا اختیار ختم کر دیا ہے۔ لیکن، نفیسہ شاہ کہتی ہیں کہ یہ ترمیم ناکافی ہے۔ ’’اب یہ ضرور ہوگا کہ جو لوگ پہلے کھل کر غیرت کے نام پر قتل کا اعتراف کر لیتے تھے، اب نہیں کریں گے۔ لیکن، باقی جو دوسرے خون ہیں، ان کے لئے تو معافی نامہ یا راضی نامہ اب بھی ہے۔ ابھی خون یا ہرٹ کے حوالے سے قوانین میں بہت ابہام ہے، بہت خلا ہے۔ اور اسے پُر کرنے کے لئے ہمیں اور ترامیم کرنی پڑیں گی۔ لیکن، یہ پہلا قدم ہے۔ اس سے کم از کم دنیا بھر میں اور پاکستان میں یہ تاثر پیدا ہوگا کہ اب کوئی بھی دندناتے ہوئے اپنی بچی کو غیرت کے نام پر قتل نہیں کر سکتا۔ لیکن، اس کے باوجود ہم نے دیکھا ہے کہ خون ہو رہے ہیں اور بڑی تعداد میں ہو رہے ہیں۔ بس لوگ انہیں غیرت کا نام نہیں دے رہے۔ اس لئے میں کہتی ہوں کہ یہ کام ابھی مکمل نہیں ہوا۔‘‘
نفیسہ شاہ صرف ایک دن کے لئے واشنگٹن میں تھیں۔ لیکن، انہیں ان کی کتاب ’آنر اینڈ وائلنس‘ کے بارے میں بات کرنے کے لئے امریکی تھنک ٹینک، یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس اور جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں مدعو کیا گیا تھا۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ جب امریکی یا مغربی اداروں میں ان سے غیرت کے نام پر قتل کے تناظر میں پاکستان کے بارے میں سوالات کئے جاتے ہیں تو وہ سیاسی مصلحت پسندی سے کام لیتی ہیں یا ایک روشن خیال پاکستانی کے طور پر جواب دینا پسند کرتی ہیں؟
نفیسہ نے کہا کہ ان کا مطالعہ اور ان کی تعلیم عالمگیر نوعیت کی ہے۔ ’’میں نے برطانیہ سے پڑھا ہے۔ یہ مسئلہ صرف پاکستان کا یا ہمارے قبیلوں کا نہیں ہے۔ نہ ہی یہ صرف مسلمان ملکوں میں، مسلمان خواتین کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اسے ’سٹیریو ٹائپ‘ نہیں کرنا چاہئے۔ اصل مقصد اگر جرم کے ذمہ داروں کو بے نقاب کرنا ہے تو اس خون کو خون تصور کرنا ہوگا۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کو ان کے دیگر حقوق بھی اس طرح نہیں ملتے، جیسے ملنے چاہئیں۔ غربت کی شرح، خوراک میں کمی، خواتین کے ان سب مسئلوں میں معاشرے یا ریاست کی طرف سے کمزوریاں ہیں جنہیں دور کرنا ہوگا‘‘۔
لیکن، کیا خواتین کے حقوق اور صنفی برابری کی لڑائی صرف پاکستان کی عام عورت کا مسئلہ ہے یا پارلیمنٹ کے ایوانوں میں بیٹھی خواتین اراکین کو بھی اسی جدو جہد کا سامنا ہے؟
نفیسہ کہتی ہیں کہ ’’بالکل۔۔ خواتین اراکین کو اپنے حلقے کے کام کروانے کے لئے سرکاری فنڈز کے حصول میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ لیکن، مرد اراکین کو ایسی مشکلات پیش نہیں آتیں‘‘۔
گزشتہ سال پنجاب اسمبلی میں خواتین کے تحفظ کے لئے ’ویمن پروٹیکشن بل‘ لانے کی کوشش کی گئی تھی، جس پر اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے زبردست مزاحمت سامنے آئی تھی۔ نفیسہ کہتی ہیں کہ ’’یہ حقیقت ہے کہ مذہب کے نام پر ووٹ لینے والے حلقے مزاحمت کرتے ہیں، مخصوص روایتی سوچ پر مبنی ردعمل بھی سامنے آتا ہے۔لیکن، بحیثیت پارلیمنٹیرین، ہمارا یہ کام ہے کہ ہم ان کے ساتھ بھی مذاکرات کریں۔‘‘
لیکن، اگر مذاکرات سے بات نہ بنے تو؟ نفیسہ کہتی ہیں کہ اس صورت میں ’’اکثریت کی رائے کے مطابق فیصلہ کر لینا چاہئے۔ اس بات پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہئے کہ فلاں جماعت ناراض ہو جائے گی۔ اگر آپ کے پاس اکثریت ہے تو آگے بڑھیں اور ان کے بغیر ہی فیصلہ کر لیں‘‘۔
نفیسہ شاہ کے بقول، پاکستان کی اکثریت اپنے ملک کو ایک ترقی پسند ملک دیکھنا چاہتی ہے، جہاں عورت اور مرد اپنے مکمل حقوق کے ساتھ انفرادی اور ملکی ترقی کے لئے کام کرتے ہوں۔