پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے دو ہفتے قبل 6 جولائی کو پریس کانفرنس میں ایک ویڈیو پیش کی جس میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے خلاف فیصلہ دینے والے جج ارشد ملک، مسلم لیگ کے کارکن ناصر بٹ سے نیب ریفرنسز کے بارے میں مبینہ طور پر گفتگو کر رہے تھے۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب کی درخواست پر 9 جولائی کو ایون فیلڈ ریفرنس میں جعلی ٹرسٹ ڈیڈ جمع کروانے کے الزام میں مریم نواز کو 19 جولائی کو طلب کیا ہے۔
ملکی سیاست اور عدالتی کارروائیوں پر نظر رکھنے والے مریم نواز کو جاری کردہ نوٹس پر سوال اٹھاتے ہیں کہ 5 جولائی 2018 کو سنائے گئے ایون فیلڈ ریفرنس فیصلے کے تقریباً ایک سال بعد مریم نواز کو مذکورہ کیس میں ہی کیسے نوٹس جاری کیا جا سکتا ہے؟
یاد رہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس فیصلے میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے مریم نواز کی پیش کردہ ٹرسٹ ڈیڈ کو جعلی تو قرار دیا تھا لیکن مریم نواز کو 7 سال کی سزا جعلی ٹرسٹ ڈیڈ جمع کروانے پر نہیں بلکہ جرم میں اعانت کرنے پر سنائی گئی تھی۔
قانونی ماہر سعد رسول کا مریم نواز کی طرف سے مبینہ ویڈیو سامنے لانے کے بعد نیب کی طرف سے دی گئی درخواست پر کہنا ہے کہ بظاہر لگتا ہے کہ مریم نواز کی سزا برقرار ہے اور وہ ضمانت پر ہیں۔ ایسی صورت حال میں نیب کو یہ لگتا ہے کہ مریم نواز کو زیر حراست رکھنا ضروری ہے۔
سعد رسول کا مزید کہنا ہے کہ موجودہ صورت حال میں نیب کے پاس دو آپشنز تھے۔ ایک تو یہ کہ وہ ضمانت کے خلاف اپیل دائر کرے۔ جو مشکل لگ رہا ہے کیونکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے سزا کی معطلی سے متعلق اپیل کا فیصلہ ابھی تک نہیں دیا۔
دوسرے طریقے کے حوالے سے سعد رسول نے بتایا کہ مریم نواز کو حراست میں لینے یا پریشر بڑھانے کا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ جو دیگر الزامات ہیں۔ ان پر کارروائی کی جائے۔ ایسی صورتحال میں نیب کو سب سے آسان کیس جعلی ٹرسٹ ڈیڈ کا لگا ہے۔ جسے نا صرف جے آئی ٹی، احتساب عدالت بلکہ سپریم کورٹ بھی جعلی قرار دے چکی ہے۔
تجزیہ کار یہ تنقید بھی کر رہے ہیں کہ نیب آرڈیننس 1999 کے آرٹیکل 30 کو استعمال کرتے ہوئے فیصلے کے بعد 30 دن کے اندر بھی مریم نواز کے خلاف کارروائی ہوسکتی تھی۔ جس کے مطابق دوران تفتیش یا دوران مقدمہ اگر کوئی گواہ یا ملزم غلط شہادت یا جھوٹا ثبوت جمع کروائے تو عدالت جھوٹی شہادت یا ثبوت پر بھی سمری ٹرائل کر کے ملزم کو سزا دے سکتی ہے۔
آرٹیکل 30 کے تحت کارروائی نا کرنے سے متعلق سعد رسول کا کہنا ہے کہ ٹائم پیریڈ سے متعلق قوانین میں عدالت کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ کسی بھی شخص کی اپیل پر اگر عدالت سمجھے کہ اس درخواست میں تاخیر کی وجوہات جائز ہیں تو عدالت کا یہ اختیار ہے کہ وہ ٹائم پیریڈ کی پابندی کو رد کرتے ہوئے درخواست منظور کر لے۔
انہوں نے مثال دے کر واضح کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کی تاریخ میں اس کی سب سے بڑی مثال سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو سندھ ہائی کورٹ کی طیارہ سازش کیس میں 2000 میں دی جانے والی عمر قید کی سزا ہے۔ جس کے بعد نواز شریف کے پاس سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کے لیے 90 دن تھے۔ لیکن نواز شریف نے 9 سال بعد 2009 میں اپیل دائر کرکے مؤقف اختیار کیا کہ وہ بیرون ملک ہونے اور عدلیہ آزاد نہیں ہونے کی وجوہات بتائیں جس پر سپریم کورٹ نے 9 سال بعد کی اپیل سن کر نواز شریف کی سزا ختم کی۔
مریم نواز کے خلاف نیب کی درخواست پر سیاسی حلقوں میں یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ جب ایک الزام پر ایک مقدمے میں کسی ملزم کو سزا ہو چکی ہو تو اسی مقدمے سے متعلق ایک اور الزام کی بنیاد پر دوبارہ کیس کی سماعت کیسے ہو سکتی ہے؟۔
پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 13 اس کے لیے 'ڈبل جیو پرڈی' کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔ جس کے مطابق کسی شخص کو ایک ہی الزام اور جرم پر دو دفعہ سزا نہیں دی جا سکتی۔
اس کے علاوہ ضابطہ فوجداری 1898 کی دفعہ 403 کے مطابق بھی ایک ہی جرم میں سزا دیے جانے کے بعد دوبارہ مقدمہ چلانے کی اجازت نہیں۔ پاکستان کے جنرل کلاز ایکٹ کی رو سے بھی ایک ہی جرم پر دو دفعہ سزا نہیں دی جاسکتی۔
دوبارہ مقدمہ چلانے، ایک اور الزام میں سزا کے سوال پر سعد رسول کا کہنا ہے کہ مریم نواز کو دی جانے والی سزا جعلی ڈیڈ جمع کروانے پر نہیں دی گئی بلکہ مریم نواز کا ٹرائل لندن میں نواز شریف، حسن اور حسین نواز کے اثاثوں کا بینیفیشل اونر ہونے پر ہوا تھا۔
مثال دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی شخص کسی کو گولی مار دے اور تفتیش میں پتہ چلے کہ قتل میں استعمال ہونے والا پستول غیر لائسنس شدہ تھا تو قتل کی سزا ہو یا نا ہو لیکن بغیر لائسنس کا پستول رکھنے کا علیحدہ کیس چلے گا۔ لہٰذا مریم نواز کے خلاف جعلی ٹرسٹ ڈیڈ جمع کروانے پر نیب کے قوانین کے مطابق ٹرائل ہو سکتا ہے۔