میانمار میں بھِکشوؤں کا مارچ، فوجی حکومت کے خاتمے کا مطالبہ

بودھ بھکشوؤں کے ایک گروپ نے منگل کو میانمار کی فوج کے خلاف مارچ کیا۔

میانمار میں نظر بند لیڈر آنگ ساں سوچی کی رہائی اور فوجی جرنیلوں کے خلاف جاری مہم میں شامل ہونے والے بودھ بِھکشوؤں کے ایک گروپ نے منگل کے روز میانمارکی فوج کے خلاف مارچ کیا۔

مظاہرین نے جمہوری حکومت کے ہٹانے پر ملک بھر میں انٹرنیٹ کی بندش کے باوجود مسلسل دوسری رات بھی احتجاج جاری رکھے۔ مظاہرین نے، ینگوں میں ملک کے سینٹرل بینک کے سامنے سڑک کو بلاک کر دیا۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق، مظاہرین نے ینگون اور جنوبی شہر مولمیائن کے درمیان ٹرین سروس کو بھی بند کر دیا۔

گہرے سرخ رنگ کے لبادے اوڑھے، تقریباً بیس بھکشو ینگون شہر کی سڑکوں مارچ کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے دفتر کے سامنے پہنچے اور عوام سے کہا کہ وہ بھی احتجاج میں شامل ہوں۔

ایک احتجاجی بھکشو، سندر تھیری نے عوام سے درخواست کی کہ وہ اس نظام اور فوجی آمریت کی طاقت کو ختم کرنے میں مدد کریں۔

بھکشوؤں نے ایک بینر اٹھا رکھا تھا جس پر انگریزی زبان میں تحریرتھا: "وہ بھکشو، جو فوجی آمریت نہیں چاہتے۔"

کرونا وائرس سے بچاؤ کیلئے چند بھکشوؤں نے سرخ ماسک پہن رکھے تھے جن پر لکھا تھا فوجی بغاوت مسترد۔

فوجی بغاوت کے ذریعے جمہوریت پسند لیڈر آنگ ساں سوچی کی حکومت برطرف کرنے کے خلاف ملک بھر کے شہروں اور قصبوں میں زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔

میانمار کو برما کہا جاتا تھا۔ اس ملک کی غالب آبادی بودھ مت کے ماننے والی ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہاں بھکشو برادریوں کو منظم کرتے ہیں، اور کبھی کبھار حزبِ اختلاف کو اقتدار تک لیجاتے ہیں، خصوصی طور پر یہ سب برطانوی نو آبادیاتی دور میں ہوا تھا۔

برما میں سیفرون ریولیوشن یعنی کیسری یا زعفرانی انقلاب کہلانے والے سن 2007 کے جمہوریت نواز احتجاجی مظاہرے دراصل اسی وجہ زعفرانی کہلائے کیونکہ ان میں بھکشو پوری طرح شامل تھے۔

گو کہ ان مظاہروں کو دبا تو دیا گیا، لیکن بالآخر فوج کو یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ اُسے اقتدار سے بتدریج پیچھے ہٹنا چاہئیے، تاہم یہ عمل اس ماہ رک گیا۔

فوج یہ الزام عائد کر کے اقتدار میں آئی کہ آٹھ نومبر کو ہونے والے انتخابات میں دھاندلی سے متعلق اس کی شکایات کو نظر انداز کیا گیا۔ اُن انتخابات میں آن سان سوچی کی پارٹی کو زبردست فتح حاصل ہوئی تھی۔

منگل کے روز ،فوج نے گارنٹی دی ہے کہ انتخابات کا انعقاد کروایا جائے گا اور اقتدار منتقل کر دیا جائے گا۔ فوج نے اس سے انکار کیا کہ حکومت کو برطرف کرنا بغاوت تھی اور یہ کہ لیڈروں کو حراست میں رکھا گیا تھا۔ فوج نے مظاہرین پر تشدد کرنے اور خوف و ہراس پیدا کرنے کے الزامات عائد کئے۔