میانمر شمال مشرقی ریاست راخین میں ہلاکتوں کے حالیہ واقعات کے بعد سیکیورٹی بڑھانے کے لیے وہاں مزید سینکڑوں فوجی بھیج دیے ہیں جس سے اس گڑبڑ والے علاقے میں تشدد اور عدم استحکام میں اضافے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔
مسلم اکثریتی ریاست راخین میں دو فوجی عہدے داروں نے خبررساں ادارے روئیٹرز کو بتایا کہ پچھلے ہفتے مونگ ڈو کے پہاڑی علاقے میں 7 بودھ افراد کے قتل کے بعد سیکیورٹی بڑھانے کے لیے مزید فوجی بھیجے گئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق فوج نے تقریباً پانچ سو فوجیوں کو بنگلا دیش کی سرحد کے قریب واقع قصبوں میں امن و امان کی صورت حال پر کنٹرول کے لیے بھیجا ہے۔
ریاست راخین کی پولیس کے سربراہ نے خبررساں ادارے کو بتایا کہ ہمیں سیکیورٹی کارروائیوں میں اضافہ کرنا پڑے گا کیونکہ شورش کے واقعات میں کئی مسلمان اور بودھ ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس طرح کے واقعات سے پچھلے سال جیسے فوجی آپریشن کے خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے جن میں فوج نے مبینہ طور پر دیہاتیوں کو بلا امتیاز گولیاں مار کر قتل کیا تھا، روہنگیا عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی تھی اور ان کے گھروں کو نذر آتش کر دیا تھا۔
اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں نے، جنہوں نے اپنی جانیں بچا کر سرحد پار بنگلہ دیش جانے والے تقریباً 75 ہزار لوگوں کے انٹرویوز کیے تھے، کہا ہے کہ میانمر کے فوجیوں نے ممکنہ طورپر انسانیت کے خلاف جرائم کیے تھے۔
میانمر کی حکومت نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے فیکٹ فائنڈنگ مشن کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کر دیا تھا، جو میانمر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لینا چاہتا تھا۔
حکومت نے سات بودھ افراد کے قتل کا الزام انتہا پسندوں پر لگایا ہے جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہ مقامی آبادی میں رہتے ہیں۔