امریکہ میں تیزی سے بڑھتی ہوئی مسلمان آبادی میں ایک بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے۔ خاص طور پر وہ نسل جو 11 ستمبر کے بعد کے دس برسوں میں پروان چڑھی ہے ۔ ان نوجوانوں نے امریکی تاریخ کی بد ترین دہشت گردی کے نتیجے میں اس ملک میں رونما ہونے والے شدید ردعمل کابھی انتہائی قریب سے نہ صرف مشاہدہ کیا ہے بلکہ اس میں سے ہوکر گذرے بھی ہیں۔
عماد قادری کا تعلق بھارت سے ہے اور وہ گیارہ ستمبر 2001 کے دن امریکی ریاست مشی گن کے شہر ڈیٹرائٹ میں تھے۔وہ کہتے ہیں کہ میں جاب پر تھا اور آفس میں ٹی وی پر یہ مناظر دکھائے جارہے تھے، عورتیں چیخیں مار کر رو رہی تھیں۔ اور اس دفتر میں اکیلا مسلمان تھا ۔
عماد کا کہنا ہے کہ اس ایک دن نے امریکہ میں آنے والے وقت کے لئے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ انھیں کئی بار نفرت انگیز رویوں کا سامنا بھی کرنا پڑا ۔
وہ کہتے ہیں کہ اس سے قبل مجھے یاد ہے کہ میں کالج میں کہیں بھی نماز پڑھ لیتا تھا لیکن گیارہ ستمبر کے بعد میں ایسی جگہ ڈھونڈتا ہوں جہاں کوئی دوسرا موجود نہ ہو۔ کیونکہ جب میں نماز پڑھتا تھا تو لوگ کھڑے ہوکر دیکھنا شروع کردیتے تھے ۔
http://www.youtube.com/embed/Efn9XYQnQZM
محسن اقبال کا تعلق پاکستان سے ہے ۔ گیارہ ستمبر کے دن وہ واشنگٹن کے قریبی علاقے میں اپنے سکول میںٕ الجبرا کی کلاس میں تھے۔وہ بتاتے ہیں کہ پہلے ہفتے میں کچھ نہیں ہوا ۔ لیکن دوسرے ہفتے میں اسی الجبرا کی کلاس میں میرے ساتھ پڑھنے والے بچے مجھے عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ ا س وقت میری عمر دس سال تھی ۔ میں نے کچھ بھی نہیں کیا تھا ۔ لیکن ایک لمحے میں دس سال کا بچہ سب کی نظروں کا نشانہ بن گیاتھا۔
محسن کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ بظاہر تو کچھ برا نہیں ہوا لیکن انہوں نے ذہنی اور نفسیاتی طور پر اس تبدیلی کو بہت زیادہ محسوس کیا۔ کیونکہ لوگوں کے رویے بدل گئے تھے۔
نیویارک میں پلنے بڑھنے والی درخشاں راجہ کا تجربہ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ڈر اور خوف کی فضا تھی۔ جن پاکستانیوں کے ویزے کی مدت ختم ہو گئی تھی وہ سب کینیڈا چلے گئے ۔ جب میں سکول گئی تو حجاب یا دوپٹہ اوڑھنے والی میری سہیلیاں خوف زدہ تھیں اور کئی ایک نے کہا کہ اب وہ دوپٹہ نہیں اوڑھیں گی۔
درخشاں کا کہنا ہے کہ اب دس برس گزرنے کے بعد اگرچہ حالات کافی بہتر ہیں لیکن غیر یقینی کی صورتحال اب بھی موجود ہے ۔
وہ کہتی ہیں کہ دس سال میں یہاں کوئی دہشت گرد حملہ نہیں ہوا ، البتہ کچھ ایسی کوششیں ہوئی ہیں۔ مجھے یہ خوف اگر کوئی حملہ کامیاب ہوگیا تو پھر کیا ہوگا۔
بظاہر اس سانحے نے اس ملک میں مسلمانوں کے مستقبل پر ایک سوالیہ نشان لگا دیا تھا لیکن ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ دس برسوں میں کچھ ایسی مثبت چیزیں بھی ہوئیں جو نائین ا لیون سے پہلے موجود نہیں تھیں۔
عمادقادری کہتے ہیں کہ میں سجھتا ہوں اب مسلمان پہلے کی طرح الگ تھلگ نہیں رہتے ۔ وہ یہاں کے معاملات میں دلچسپی لینے لگے ہیں۔
محسن کا کہناہے کہ نائین الیون نے مجھے اپنے گردوپیش سے بہت باخبر کردیا ہے۔ مجھے اب پتا کہ اس معاشرے میں رہتے ہوئے کیسے آگے بڑھنا ہے۔
درخشاں کا کہناتھا اب امریکہ کو پتا ہے کہ ہم یہاں ہیں ۔ شاید پہلے لوگ اس بارے میں نہیں سوچتے تھے۔ اب اکثر امریکی ہمارے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ پہلے ایسا نہیں ہوتاتھا۔
امریکہ میں پروان چڑھنے والے مسلمان نوجوانوں کو امید ہے کہ آنے والے برسوں میں امریکہ اور پوری دنیا میں مسلمانوں کا مثبت کردار ابھر کر سامنے آئے گا ۔ لیکن اس کے لئے امریکہ میں ہی نہیں ، دنیا بھر میں مسلمان نوجوانوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔