پاکستان کے صوبہٴ پنجاب میں گوجرہ کے قریب واقع ایک گاؤں مسلمانوں اور مسیحی برادری کی ہم آہنگی کی ایک روشن مثال بن گیا ہے۔
گوجرہ کے اس گاؤں میں مسلمان اور مسیحی سب مل جل کر رہتے ہیں اور عیسائیوں کے لئے کوئی علیحدہ کالونی یا علاقہ مخصوص نہیں۔ اس علاقے میں ایک گھر مسلمان کا تو اس کے ساتھ والا گھر عیسائی کا ہے۔
یہاں ایک گرجا گھر زیرتعمیر ہے جسے بنانے کے لئے تین مرلہ زمین عیسائی خاتون بشیراں بی بی نے دی تھی، جبکہ گرجا گھر بنانے کے لئے مسلمان اور مسیحی برادری مل جل کرحصہ لے رہی ہے۔ چاہے گرجا گھر کی تعمیرکے اخراجات کا معاملہ ہو یا پھر عمارت بنانے کا مرحلہ۔ ہر جگہ مسلمان اپنے مسیحی بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور ان کے ساتھ شریک نظر آتے ہیں۔
برطانوی اخبار’ انڈیپنڈنٹ‘ نے ایک مقامی اخبار کےحوالے سے دی گئی رپورٹ میں بتایا ہے کہ گاؤں میں عیسائیوں کی پہلی عبادت مون سون کی بارشوں میں تباہ ہوگئی تھی۔ اس کی نئے سرے سے تعمیر کے لئے ہر شخص نے اپنی حیثیت اور استطاعت کے مطابق چندہ دیا۔ ایک کاشتکار نے دو ہزار روپے دئیے تو مقامی دلاور حسین، جن کا اپنا کاروبار ہے، انہوں نے 10000 روپے کا عطیہ دیا۔
عیسائی مزدور فریاد مسیح نے ترک نیوز ایجنسی، اناطولیہ سے بات چیت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلی بار جب میں نے مسلمان لیڈروں کو یہ کہتے سنا کہ وہ ہمارا گرجا گھر بنا کر دیں گے، تو مجھے یقین نہیں آیا۔ لیکن، اس وقت مجھے خوشگوار حیرت ہوئی جب میں نے دیکھا کہ اعلان ہونے کے ایک مہینے کے اندر گرجا گھر کی تعمیر کا کام شروع ہوگیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ گرجا گھر کی تعمیر سے ہماری کمیونٹی کا دیرینہ خواب پورا ہوگیا۔ اب ہمیں ایسٹر، کرسمس یا دیگر تہوار منانے کے لئے کسی کا گھرکرائے پر نہیں لینا پڑے گا۔
گاؤں کے قریبی شہر گوجرہ میں 2009ء میں ہونے والے فسادات میں 10 افراد ہلاک اور متعدد گھر تباہ ہوگئے تھے۔ علاقہ کے ایک اور رہائشی فریال مسیح کا کہنا تھا کہ ہم سب مل کر پیار و محبت سے رہتے ہیں۔ ہماری خوشیاں اور غم سانجھے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ گوجرہ جیسا واقعہ دوبارہ نہ ہو۔