فیصلہ ادارے کے خلاف نہیں، فرد واحد کے خلاف آیا ہے: محمد زبیر

پاکستان مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما اور سندھ کے سابق گورنر، محمد زبیر نے کہا ہے کہ آئین معطل کرنے کے جرم میں سابق فوجی جنرل پرویز مشرف کو دی جانے والی سزائے موت کا عدالتی فیصلہ پاکستان کے جمہوری مستقبل کےلیے ’’سنگ میل کی حثیت‘‘ رکھتا ہے۔

وائس آف امریکہ کے ساتھ فیس بلک لائیو کے ذریعے انٹرویو میں سابق گورنر محمد زبیر کا کہنا تھا کہ “یہ فیصلہ سنگ میل کی حثیت رکھتا ہے، کیونکہ ایک ایسے ملک میں جہاں مشرف کی ایمرجنسی ملا کر پانچ مرتبہ براہ راست پاکستانی فوج کی جانب سے سیاسی نظام میں مداخلت کی گئی، وہاں اب آئندہ آئین کو معطل کرنے کی کوشش کرنے والا پہلے کم از کم سو مرتبہ سوچے گا۔

پاکستانی فوج کی جانب سے پرویز مشرف کے دی جانے والی سزائے موت پر نالاں ہونے کے بیان سے متعلق محمد زبیر نے کہا “ہمارا مؤقف یہ ہے کہ یہ فیصلہ ادارے کے خلاف نہیں بلکہ فرد واحد کے خلاف آیا ہے‘‘۔

جنرل پرویز مشرف سابق آرمی چیف کے طور پر بھی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور سیاسی پارٹی کے لیڈر کے طور پر بھی۔ جب ایک شخص سیاست میں آگیا ہے تو پھر اس کی ضروریات کا خیال بھی رکھنا چاہئے۔ مشرف کو چھ سال میں بار بار موقع دیا گیا اپنی صفائی پیش کرنے کا، مگر وہ نہیں آئے‘‘۔

اس سلسلے میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے اظہار برہمی پر بات کرتے ہوئے، انھوں نے کہا کہ ’’یہ دلچسپ بات ہے کہ سب سے پہلے پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کی آواز خود موجودہ حکومت کے سربراہ عمران خان نے اٹھائی اور ان کی جماعت مسلسل اس موقف کی تائید کرتی رہی۔ اب جب وہ حکومت میں ہیں اور پروسیکیوشن ان کا اختیار اور حق ہے اور انہون نے ذمہ داری نبھائی بھی تو پھر عدالتی فیصلے کے بعد اتنا ردعمل کیوں دکھایا جا رہا ہے۔‘‘

عدالت نے پرویز مشرف کو ملک سے فرار ہونے والوں کو بھی انصاف کے کہٹرے میں لانے کی بات کی تو مسلم لیگ ن کی سربراہی میں مشرف پاکستان سے فرار ہونے میں کامیاب کیسے ہوئے؟ اس کے جواب میں مسلم لیگ ن کے رہنما نے کہا ’’پرویز مشرف نے خود فرار ہونے کے بعد ایک انٹرویو میں عدالتوں کی جانب سے مدد کا اشارہ دیا۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف یا ہماری جماعت نے ان کو باہر بھیجے میں ان کی کوئی مدد نہیں کی۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ “آئین کی بالادستی سب سے اہم ہے۔ بد قسمتی سے آئین بار بار معطل کیا گیا۔ تو یہ ہماری ایک تاریخ ہے اور جب جنرل مشرف نے 2007 میں ایکشن لیا، آئین کو معطل کر کے ایمرجنسی لگا دی۔، ایک آرمی چیف کے طور پر انہوں نے یہ اقدام کیا، جب کہ اس وقت پارلیمنٹ اور وزیر اعظم اور ان کی کابینہ موجود تھی، جسے اس وقت کی عدلیہ نے غیر قانونی قرار دیا۔ اس پر انہوں نے فوج بھیج کر ان ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے 60 ججوں کو حراست میں لے لیا۔ تو ظاہر ہے کہ آئین سے غداری تو ہوئی۔

خیال رہے سن 2009ء میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے متفقہ فیصلہ دیا تھا کہ سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ “یہ تاثر غلط ہے کہ مسلم لیگ (ن) اس فیصلے کے بعد سے خاموش ہے۔ پارٹی کی سیکریٹری اطلاعات مریم اورنگزیب نے اس فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا کہ پاکستان کے جمہوری مستقبل کے لیے یہ ایک اہم فیصلہ ہے۔ ایسے ہی پارٹی کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے بھی اس پر اپنا رد عمل دیا۔

محمد زبیر نے مزید کہا کہ ’’یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے۔ اداروں کے درمیان اس سے زیادہ تضاد نہیں ہونا چاہئے۔ سب کو ایک قدم پیچھے ہٹنے کی ضرورت ہے۔ ایک مضبوط لیڈرشپ کی ضرورت ہے جو دونوں اداروں کو یقین دہانی کرائے کہ اب امید ہے سب کچھ قانون کے مطابق ہوگا‘‘۔