غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری: 'مشرف کی پھانسی پر ہر صورت عمل کرایا جائے'

جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف پاکستان کے سابق صدر اور آرمی چیف ہیں جبکہ وہ ان دنوں دبئی میں زیر علاج ہیں — فائل فوٹو

پاکستان کے سابق صدر اور آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت پر خصوصی عدالت نے تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔

تفصیلی فیصلے میں عدالت کا کہنا ہے کہ جمع کرائے گئے دستاویزات سے واضح ہے کہ ملزم نے جرم کیا۔ تمام الزامات کسی شک و شبہے کے بغیر ثابت ہوتے ہیں لہذا ملزم کو ہر الزام پر علیحدہ علیحدہ سزائے موت دی جاتی ہے۔

عدالت کا کہنا ہے کہ ہائی ٹریزن ایکٹ 1973 کے تحت پرویز مشرف کو پھانسی کی سزا سنائی جاتی ہے۔

فیصلے میں بینچ کے سربراہ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے تحریر کیا ہے کہ پرویز مشرف کی پھانسی کی سزا پر ہر صورت عمل درآمد کرایا جائے۔ پرویز مشرف مردہ حالت میں ملیں تو لاش ڈی چوک پر لائی جائے اور یہ لاش تین دن تک ڈی چوک پر لٹکائی جائے۔

بینچ میں شامل جسٹس شاہد کریم نے لاش ڈی چوک لانے کے فیصلہ سے اختلاف کیا جبکہ جسٹس نذر اکبر نے فیصلہ سے اختلاف کرتے ہوئے پرویز مشرف کو بری کیا ہے۔

دو ججز کی اکثریت سے کیے گئے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ملزم کو ہر الزام پر علیحدہ علیحدہ سزائے موت دی جاتی ہے۔ عدالت نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مشرف کو گرفتار کرنے کا حکم دیا۔

جسٹس وقار سیٹھ نے لکھا ہے کہ پھانسی پر عمل در آمد سے قبل اگر پرویز مشرف فوت ہو جاتے ہیں تو ان کی لاش کو ڈی چوک لایا جائے اور تین دن تک وہاں لٹکایا جائے۔

جسٹس شاہد کریم نے جسٹس وقار کے اس فیصلے سے اختلاف کیا۔ جسٹس شاہد کریم کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کو صرف سزائے موت دینا ہی کافی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے۔ سزائے موت کا فیصلہ ملزم کو مفرور قرار دینے کے بعد ان کی غیر حاضری میں سنایا گیا۔ پرویز مشرف کو مفرور کرانے میں ملوث افراد کو قانون میں دائرے میں لایا جائے۔ ان کے مجرمانہ اقدام کی تفتیش کی جائے۔

عدالت نے فیصلے کی کاپی اٹارنی جنرل اور پرویز مشرف کے وکیل کو فراہم کرنے کی ہدایت کی۔

اس فیصلے میں جسٹس نذر اکبر نے اختلاف کیا اور سابق صدر مشرف کو بری کیا ہے۔

فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ آئین عوام اور ریاست کے درمیان ایک معاہدہ ہے۔ استغاثہ کے شواہد کے مطابق ملزم مثالی سزا کا مستحق ہے۔

یہ بھی تحریر کیا گیا ہے کہ غداری کیس 2013 میں شروع ہو کر چھ سال بعد ختم ہوا۔ پرویز مشرف کو ان کے حق سے بھی زیادہ شفاف ٹرائل کا موقع دیا گیا۔ پرویز مشرف کو فیئر ٹرائل کا بھر پور موقع دیا گیا۔

مزید کہا گیا ہے کہ مقدمہ 2019 تک فیصلے کا منتظر رہا۔ اس کیس کے حقائق دستاویزی ہیں۔ مجرم کے فرار میں ملوث افراد کے خلاف فوجداری کارروائی کی جائے۔ پرویز مشرف کو دفاع کا مکمل حق دیا گیا۔

جسٹس نذر اکبر نے 44 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ میں لکھا کہ استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ مختلف عوامل اس کیس میں شامل تھے جن میں پرویز مشرف کی طرف سے ایمرجنسی نافذ کرنے کے وقت ان کے ساتھ موجود دیگر افراد کو اس کیس میں شامل نہیں کیا گیا۔

انہوں نے مزید تحریر کیا ہے کہ اس کے علاوہ ججز بحالی کیسی ہوئی۔ کس کا ٹیلی فون اعتزاز احسن کو آیا۔ ججز بحالی کا اعلان ہونے کے بعد بھی پانچ دن بعد انہیں بحال کیا گیا۔ ایسے بہت سے سوالات کیس میں موجود ہیں۔

پرویز مشرف کے لیے ایک اور مشکل

اس فیصلے کے بعد سابق صدر پرویز مشرف کے لیے ایک اور مشکل بھی پیدا ہوئی ہے کیونکہ خصوصی عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ پرویز مشرف کو اپیل کرنے سے پہلے گرفتاری دینا ہو گی۔

عدالتی حکم کے بعد سرنڈر کیے بغیر مشرف اپیل نہیں کر سکتے۔

عدالت نے فیصلہ دیا کہ اس کیس سے متعلق ریکارڈ رجسٹرار کی تحویل میں رکھا جائے۔

فیصلے میں بلیک لاء ڈکشنری کا حوالہ بھی سے کر کہا گیا کہ بلیک لاء ڈکشنری کا حوالہ غیر آئینی لفظ کی تشریح کے لیے کیا گیا ہے۔ سنگین غداری کی تشریح کے لیے آکسفورڈ ڈکشنری کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین پاکستان آرمی چیف کو اس قسم کا کوئی اختیار نہیں دیتا کہ وہ غیر آئینی اقدام اٹھائے۔ ایک لمحے کے لیے بھی آئین کو معطل کرنا آئین کو اٹھا کر باہر پھینکنے کے مترادف ہے۔ ملک میں ایمرجنسی لگا کر آئین کو معطل نہیں کیا جاسکتا۔

جسٹس شاہد کریم نے جسٹس وقار سیٹھ کے کا مثالی سزا سے متعلق پیراگراف سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ مثالی سزا کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں یہ غیر آئینی ہوگی۔

جسٹس نذراکبر اختلافی نوٹ

جسٹس نذر اکبر نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ 18ویں ترمیم کےذریعے پارلیمنٹ نے سات نومبر 2007 کی قومی اسمبلی کی قرارداد کی توثیق کی اور پھر 18ویں ترمیم میں آئین کے آرٹیکل 6 میں ترمیم کی گئی۔

انہوں نے لکھا کہ اس وقت پارلیمنٹ نے 17 ویں ترمیم کے ذریعے مجرم کو سہولت دی۔ استغاثہ نے سنگین غداری کے مطلب کا انحصار آکسفورڈ ڈکشنری پر کیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پارلیمنٹ نے اکتوبر 1999 کی ایمرجنسی کی توثیق نظریہ ضرورت کے تحت کی۔ تاہم کسی میں ہمت نہ ہوئی کہ وہ ایمرجنسی کےنفاذ کے خلاف پارلیمنٹ میں تحریک لاسکے۔ اس وقت بہت سارے وکلا پارلیمنٹ کا حصہ تھے وہ وکلا تحریک میں بھی شامل تھے۔

انہوں نے مزید لکھا کہ قومی اسمبلی نے 7 نومبر 2007 کو اپنی قرارداد منظور کر کے ایمرجنسی کے نفاذ کی توثیق کی لیکن ایک بھی رکن پارلیمنٹ نے پارلیمنٹ میں آواز نہیں اٹھائی۔

فیصلے میں ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی میں ایمرجنسی کے نفاذ پر کوئی احتجاج نہیں کیا گیا۔ اس عمل کا واحد ہدف تین نومبر 2007 کا اقدام تھا۔ پارلیمنٹ نے پہلےخاموشی اختیار کرکے پھر آرٹیکل 6 میں ترمیم کر کے عدلیہ کو دھوکا دیا۔

جسٹس نذر اکبر کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کا آرٹیکل 6 میں ترمیم کا ارادہ تھا تو اس کا اطلاق ماضی سے ہونا چاہیے۔ 18ویں ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ نے فیصلہ دیا پرویز مشرف کا 3 نومبر کا اقدام سنگین غداری نہیں تھا۔

جسٹس نذر کا کہنا تھا کہ استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ مختلف عوامل اس کیس میں شامل تھے۔ پرویز مشرف کی طرف سے ایمرجنسی نافذ کرنے کے وقت ان کے ساتھ موجود دیگر افراد کو اس کیس میں شامل نہیں کیا گیا۔

فیصلے میں انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ ججز بحالی کیسی ہوئی۔ کس کا ٹیلی فون اعتزاز احسن کو آیا۔ ججز بحالی کا اعلان ہونے کے بعد بھی پانچ دن بعد انہیں بحال کیا گیا۔ایسے بہت سے سوالات کیس میں موجود ہیں

انہوں نے تحریر کیا کہ پراسیکیوٹر تین سویلین افراد کو سنگین غداری کے مقدمے میں شامل کرانا چاہتی تھی۔ پراسیکیوٹر نے شکایت دائر کرنے والے سابق سیکرٹری داخلہ سے مختلف موقف اپنایا۔ پراسیکیوٹر نے کسی نئی انکوائری، تحقیققات کے بغیر تین سویلین کا نام شامل کرنے کا کہا۔ سابق سیکریٹری داخلہ بطور گواہ پیش ہوئے اور سابق سیکریٹری داخلہ کے مطابق انکوائری میں پرویز مشرف کے سوا کسی کے خلاف مواد نہیں ملا۔

انہوں نے کہا کہ تین سویلینز کو ٹرائل میں شامل کرانا مقدمے کا از سر نو ٹرائل شروع کرانے کے مترادف ہے۔ اس کہانی کے پس منظر میں ملزم پرویز مشرف کو پھانسی کی سزا نہیں دی جا سکتی۔

ان کا تحریری فیصلے میں کہنا تھا کہ وزارت داخلہ سنگین غداری کے مماملے پر صاف شفاف انکوائری کرنے میں ناکام ہوئی۔ پراسکیوشن پرویز مشرف کے خلاف جان بوجھ کر سنگین غداری کا مقدمہ بنانے میں ناکام ہو ئی۔ وزارت داخلہ ایمرجنسی کے سہولت کاروں کے خلاف انکوائری میں ناکام ہوئی۔

جسٹس نذر اکبر کا کہنا تھا کہ تین نومبر کا اقدام بد نیتی۔غیر قانونی غیر آئینی ہو سکتا ہے۔ سپریم کورٹ بھی تین نومبر کے اقدام کو غیر آئینی کہہ چکی ہے لیکن مواد کے معیار اور ثبوت سے سنگین غداری ثابت نہیں ہوتی۔

ججز کو محصور کرنے کے معاملہ پر انہوں نے کہا کہ ججز کو محصور کرنے پر پرویز مشرف کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ کا سامنا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عدلیہ کے ٹرائل کے دوران مارچ 2007 سے مارچ 2009 تک پارلیمنٹ اور ایگزیکٹیو اتھارٹی آنکھ مچولی کھیلتے رہے۔ اس پریڈ کے دوران عدلیہ کی داد رسی کے لیے کوئی فورم اور قانون موجود نہ تھا۔

انہوں نے مزید تحریر کیا کہ مارچ 2009 میں عدلیہ اچانک بحال ہوئی۔ سینئر وکیل اعتزاز احسن کو کس نے فون کرکے لانگ مارچ روکنے کا کہا تھا اس کی ابھی تک شناخت نہیں ہو سکی۔ مجھے یہ یقین ہے کال کرنے والی شخیت صدر پاکستان یا وزیر اعظم پاکستان نہیں تھے۔ اپوزیشن لیڈر نواز شریف اس وقت اعتزاز احسن کے ساتھ سیٹ پر بیٹھے تھے۔

حکومت کا جج کے خلاف کارروائی کا عندیہ

اس اہم فیصلے پر حکومت کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آ رہا ہے اور اٹارنی جنرل انور منصور خان کا کہنا ہے کہ یہ ایک غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی فیصلہ ہے۔

ان کے بقول آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ایسا کرنے والے جج کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے اور ہم لازماً جج کے خلاف کارروائی کریں گے۔

معاون خصوصی اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ ابھی تفصیلی فیصلہ نہیں پڑھا۔ تفصیلی فیصلہ پڑھنے کے بعد مشاورتی ٹیم رائے دے گی۔

ان کے مطابق فیصلے کرنا اور فیصلے میں انصاف ہوتا نظر آنا مختلف ہے۔ ہم انصاف کے ساتھ کھڑے ہیں۔ فیصلے میں انصاف ہوا تو ہم ساتھ کھڑے ہیں۔ ہر شخص کو حق ہے وہ انصاف کے لیے متلاشی رہے۔

فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ حکومت اپیل کیسے کر سکتی ہے۔ اپیل پرویز مشرف نے کرنی ہے۔ جب مشرف کے وکلا اپیل دائر کریں گے تو قانونی نکات کو دیکھیں گے۔

ان کے بقول اپیل کے بعد فیصلہ کریں گے اس کی کیا حیثیت ہے۔حکومت قانون اور انصاف کے لیے کھڑی ہو گی۔

فردوس عاشق اعوان نے پرویز مشرف کی میت ڈی چوک لانے سے متعلق سوال کا جواب نہیں دیا۔

پس منظر

3 نومبر 2007 کو پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے آئین معطل اور میڈیا پر پابندی عائد کی تھی جبکہ چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری سمیت سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس کے ججز کو گھروں میں نظر بند کر دیا تھا۔

پاکستان میں آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت آئین کو توڑنا اور اس کام میں مدد کرنا ریاست سے سنگین غداری کا جرم ہے جس کی سزا موت ہے۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف نے 26 جون 2013 کو انکوائری کے لیے وزارت داخلہ کو خط لکھا جس پر وزارت داخلہ نے ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جس نے 16 نومبر 2013 کو رپورٹ جمع کرائی۔

لا ڈویژن کی مشاورت کے بعد 13 دسمبر 2013 کو پرویز مشرف کے خلاف شکایت درج کرائی گئی جس میں ان کے خلاف سب سے سنگین جرم متعدد مواقع پر آئین معطل کرنا بتایا گیا۔

پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ 6 سال سے زائد چلا۔ وہ صرف ایک دفعہ عدالت میں پیش ہوئے اور پھر ملک سے باہر چلے گئے۔

خصوصی عدالت کی متعدد دفعہ تشکیل نو ہوئی اور ججز بدلتے رہے۔

جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس طاہرہ صفدر سمیت 7 ججز نے مقدمہ سنا۔ بالا آخر 17 دسمبر 2019 کو جسٹس وقار سیٹھ کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سزائے موت سنا دی۔