اسلام آباد کی ایک عدالت نے لال مسجد کے نائب خطیب عبدالرشید غازی کے مقدمہ قتل میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں۔
منگل کو ایڈیشنل سیشن جج واجد علی نے اس مقدمے کی کارروائی کے دوران پرویز مشرف کے وکیل کی طرف سے دائر کی گئی درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے انھیں مسترد کرتے ہوئے سابق صدرکے وارنٹ جاری کیے۔
سابق صدر کے وکیل نے عدالت کے سامنے موقف اختیار کیا تھا کہ کیونکہ یہ مقدمہ پاکستان کی عدالت عظیٰ میں بھی زیر سماعت ہے لہذا اس عدالت کو اس مقدمے کی سماعت کا اختیار نہیں ہے۔
ایک اور درخواست میں پرویز مشرف کی ناسازی طبع اور ان کی جان کو لاحق خطرات کے باعث انھیں عدالت میں پیش ہونے سے استثنیٰ دینے کی استدعا کی گئی تھی۔
اس مقدمے کی سماعت دو اپریل تک ملتوی کر دی گئی ہے۔
عبدالرشید غازی جولائی 2007 میں فوج کی طرف سے اسلام آباد کے قلب میں واقع لال مسجد میں چھپے شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کے دوران ہلاک ہو گئے تھے۔ ان کے لواحقین نے یہ کہہ کر پرویز مشرف کے خلاف یہ مقدمہ درج کروایا تھا کہ اس آپریشن کا حکم اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے دیا تھا۔
پرویز مشرف کا موقف رہا ہے کہ ریاست کی عملدرای کو بحال رکھنے کے لیے ان شدت پسندوں کے خلاف کارروائی ناگزیر ہوچکی تھی۔ اس آپریشن میں سکیورٹی فورسز کے ایک درجن سے زائد اہلکاروں سمیت کم ازکم ایک سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
پرویز مشرف 1999ء سے 2008ء تک ملک کے سربراہ رہے اور عہدہ صدارت سے مستعفی ہونے کے بعد انھوں نے 2009ء میں خودساختہ جلاوطنی اختیار کی۔
لیکن 2013ء کے عام انتخابات میں شرکت کے لیے وہ پاکستان واپس آئے تھے۔
انھیں پاکستان میں متعدد مقدمات کا سامنا ہے جس میں 2006ء میں بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی اور 2007ء میں سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمات بھی شامل ہیں۔
اس کے علاوہ نومبر 2007ء میں آئین معطل کر کے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کی الزام میں سابق صدر کو آئین شکنی کے مقدمے کا بھی سامنا ہے۔
وہ پاکستان کے پہلے ایسے آرمی چیف ہیں جن پر آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔