سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے خبردار کیا ہے کہ اگر دنیا ایران کو روکنے کے لیے متحد نہ ہوئی تو تیل کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو سکتا ہے۔
اتوار کو امریکی ٹی وی چینل 'سی بی ایس' کے پروگرام 'سکسٹی منٹس' میں انٹرویو دیتے ہوئے سعودی ولی عہد کا کہنا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ فوجی حل کے بجائے سیاسی حل چاہتے ہیں۔
انٹرویو میں محمد بن سلمان نے سعودی اہلکاروں کے ذریعے صحافی جمال خشوگی کو قتل کرنے کا حکم دینے کی تردید کی۔
انہوں نے کہا کہ وہ سعودی ولی عہد کی حیثیت سے قتل کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔
صحافی جمال خشوگی کے ترکی میں سعودی قونصل خانے میں قتل کو میڈیا رپورٹس میں ولی عہد کی بین الاقوامی سطح پر ساکھ کے لیے نقصان قرار دیا گیا تھا۔
ایران امریکہ کشیدگی
ایران کی امریکہ کے ساتھ جاری کشیدگی کے حوالے سے مبصرین خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ حالیہ مہینوں میں واشنگٹن اور ریاض میں سفارتی تعلقات مزید مستحکم ہوئے ہیں۔
سعودی ولی عہد کا کہنا تھا کہ اگر دنیا ایران کو روکنے کے لیے اقدامات نہیں کرتی تو ہم مزید ایسی کارروائیاں دیکھیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایران کی کارروائیوں سے دنیا کا امن متاثر ہوگا جبکہ تیل کی رسد میں خلل پڑ سکتا ہے۔ جس کی وجہ سے تیل کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا۔
منگل کے روز کیے گئے انٹرویو میں سعودی ولی نے کہا کہ وہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے اتفاق کرتے ہیں کہ ایران کی طرف سے 14 ستمبر کو سعودی آئل تنصیبات پر حملہ ایک جنگی اقدام تھا۔
دوران انٹرویو ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے کیونکہ جنگ سے عالمی معیشت پر اثر پڑے گا۔
خیال رہے کہ حالیہ دنوں میں سعودی عرب میں دو تیل تنصیبات پر ڈرون حملے کیے گئے تھے۔ ان حملوں کی ذمہ داری یمن کے حوثی باغیوں نے قبول کی تھی۔
امریکہ اور یورپی ممالک نے حملوں کا ذمہ دار ایران کو قرار دیا ہے جبکہ ایران کی طرف سے ان الزامات کو رد کیا گیا ہے۔
سی بی ایس سے انٹرویو میں سعودی ولی عہد کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ فوجی حل کی نسبت سیاسی اور پُر امن حل زیادہ بہتر ہے۔
محمد بن سلمان نے یہ بھی کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو تہران کے جوہری پروگرام اور مشرق وسطی میں اثر و رسوخ قائم کرنے کے لیے ایران کے صدر حسن روحانی سے ملاقات کرنی چاہیے۔
یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر امریکی اور ایرانی صدور کے درمیان ملاقات کروانے کی کوششیں ناکام رہی تھیں۔
واضح رہے کہ جوہری معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی اور واشنگٹن کی طرف سے ایران پر پابندیوں کے بعد سے دونوں ممالک میں سفارتی سطح پر حالات کشیدہ ہیں۔
جمال خشوگی قتل
صحافی جمال خشوگی کے ترکی میں سعودی قونصل خانے میں قتل سے متعلق سعودی ولی عہد سے دوران انٹرویو جب پوچھا گیا کہ کیا قتل کا حکم انہوں نے دیا تھا؟ تو اُن کا کہنا تھا کہ بالکل بھی نہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ قتل چونکہ سعودی اہلکاروں نے کیا تھا لہذا وہ اس قتل کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ صحافی جمال خشوگی کے قتل کو ایک سال مکمل ہونے والا ہےجس سے متعلق محمد بن سلمان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ایک غلطی تھی اور کسی بھی ایسے اقدام سے بچنے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔
امریکی تفتیشی ادارے 'سی آئی اے' اور مغربی حکومتیں سمجھتی ہیں کہ اس قتل کا حکم سعودی ولی عہد کی طرف سے دیا گیا تھا تاہم سعودی حکام نے ہمیشہ اس دعوے کی تردید کی ہے۔
دوران انٹرویو میزبان کی طرف سے پوچھے گئے سوال کہ یہ قتل آپ کو بتائے بغیر کیسے ہوسکتا ہے؟ کے جواب میں سعودی ولی عہد کا کہنا تھا کہ یہ جاننا ناممکن ہے کہ سعودی حکومت کے لیے کام کرنے والے 3 لاکھ اہلکار روزانہ کیا کام کر رہے ہیں۔
سعودی ولی کا مزید کہنا ہے کہ تحقیقات جاری ہیں اور جب کسی کے خلاف الزامات ثابت ہوجائیں گے اس کا جو بھی عہدہ ہو، اسے عدالت کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ جمال خشوگی کے قتل سے متعلق کی جانے والی خفیہ تحقیقات میں 11 سعودی ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس مقدمے کی اب تک چند سماعتیں ہی ہوسکی ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور دیگر سعودی حکام سے بھی تحقیقات کرنے کا کہا گیا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار جمال خشوگی کو آخری بار 2 اکتوبر کو ترکی کے شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں دیکھا گیا تھا جہاں وہ اپنی شادی سے قبل کاغذات وصول کرنے گئے تھے۔