حکومت، تحریک لبیک معاہدہ؛ 'اس بار ضمانت اُنہوں نے دی ہے جو یہ اختیار رکھتے ہیں'

مفتی منیب نے کہا کہ وزرا سے متعلق ان کے بیانات میں تلخی کا تعلق رویتِ ہلال کمیٹی سے علیحدگی سے جوڑنا درست نہیں۔

رویتِ ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین مفتی منیب الرحمٰن نے کہا ہے کہ حکومت اور کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے درمیان ہونے والا معاہدہ ہمیشہ کے لیے خفیہ نہیں ہے اور وقت آنے پر اس کی تفصیلات سامنے آجائیں گے۔ ان کے بقول اس کے مندرجات میں کوئی ایسی چیز شامل نہیں جو پاکستان کے مفاد کے خلاف ہو یا جس سے بین الاقوامی برادری کے لیے کوئی مسئلہ پیدا ہو۔

ٹی ایل پی کے احتجاج اور اسلام آباد کی جانب مارچ سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کے بعد گزشتہ ہفتے ٹی ایل پی اور حکومت کے مذاکرات میں مفتی منیب الرحمٰن نے ثالثی کا کردار ادا کیا تھا۔

فریقین کے درمیان ہونے والے اس معاہدے کی تفصیلات تاحال منظرِ عام پر نہیں آئی ہیں۔ جب کہ حکومت نے بھی اس معاملے پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

وائس آف امریکہ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں مفتی منیب الرحمٰن کا اس معاہدے کے بارے میں کہنا تھا کہ معاہدے میں طے ہوا تھا کہ اس پر زیادہ بات نہیں کی جائے گی بلکہ اس پر عمل درآمد ہوتا ہوئے دیکھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ معاہدے پر عمل درآمد کی ضمانت انہوں نے دی ہے جن کے پاس گارنٹی دینے کا اختیار ہے۔

واضح رہے کہ پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کی اشاعت پر فرانسیسی سفیر کی بے دخلی اور ٹی ایل پی کے امیر سعد رضوی کی رہائی کے مطالبات پر ٹی ایل پی نے جمعہ 22 اکتوبر کو لاہور سے اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کیا تھا۔

Your browser doesn’t support HTML5

فرانس کے سفیر کی بے دخلی؛ 'ٹی ایل پی کو پارلیمنٹ کا فیصلہ قبول ہو گا'

پنجاب پولیس نے تصدیق کی تھی کہ ٹی ایل پی کے مارچ کے دوران ہونے والی مختلف جھڑپوں میں سات اہل کار ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔ البتہ ٹی ایل پی نے بھی ان جھڑپوں میں اپنے کارکنوں کی ہلاکتوں کے دعوے کیے تھے۔

مصالحت کے لیے رابطہ کس نے کیا؟

حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان مصالحت کے دوران آرمی چیف سے ملاقات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے ایک دوست نے رابطہ کیا تھا۔ اس بارے میں اس طرح بار بار پوچھا جا رہا ہے جیسے ایسا پہلی بار ہو رہا ہے۔ ان کے بقول دنیا بھر میں مصالحت کے لیے ایسے ہی رابطے ہوتے ہیں۔ کیا طالبان کے ساتھ امریکہ کے مذاکرات میں رابطہ کار نہیں تھے۔

جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ملاقات سے یہ تاثر ملا کہ وہ اس مسئلے کو کسی خوں ریزی اور قتل و غارت کے بغیر حل کرنا چاہتے ہیں۔

SEE ALSO: حکومت اور کالعدم ٹی ایل پی کے درمیان خفیہ معاہدے پر عمل درآمد شروع

کالعدم ٹی ایل پی کے حالیہ معاہدے میں آرمی چیف سے ملاقات اور فوج کے کردار کے بارے میں انہوں نے کہا کہ فوج ریاست کا ادارہ ہے۔ ان کے بقول "جسے ہم اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں وہ سول نمائندوں اور فوج دونوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس لیے میں کہوں گا کہ ریاست نے ہمیں یقین دہانی کرائی ہے کہ معاہدے پر عمل درآمد ہو گا۔"

فرانس کے سفیر کی بے دخلی؟

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کالعدم ٹی ایل پی نے حکومت کو آئندہ تشدد کی سیاست سے گریز اور فرانسیسی سفیر کی بے دخلی کے مطالبے سے مبینہ طور پر پیچھے ہٹنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

تاہم مفتی منیب الرحمٰن کہتے ہیں ٹی ایل پی نے فرانس کے سفیر کی بے دخلی کا معاملہ پارلیمنٹ کے سپرد کر دیا ہے وہ اپنی اجتماعی دانش سے جو بھی فیصلہ کریں گے وہ قبول ہو گا۔

مفتی منیب کے بقول ہم نے یہ تو نہیں کہا کہ آپ ہماری مرضی کے خلاف فیصلہ کریں گے تو ہم پارلیمنٹ پر چڑھائی کر دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ملک کی سیاسی تاریخ میں کئی بار یہ ہوا ہے کہ دیواروں پر امریکہ کے سفیر کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ لکھا گیا۔ کسی سفیر کو ملک سے نکالنے کا مطالبہ کرنا غیر سیاسی نہیں۔

معاہدے میں اس بار نیا کیا ہے؟

ماضی میں کالعدم ٹی ایل پی اپنے مطالبات منوانے کے لیے اسلام آباد کی جانب مارچ کر چکی ہے اور ہر بار کسی معاہدے کے بعد ہی احتجاج ختم ہوتا رہا ہے۔

اس سلسلے میں 2017 میں بھی ٹی ایل اپی اور اس وقت کی حکومت کے درمیان معاہدہ ہوا تھا جس میں فوج نے ثالثی یا ضامن کا کردار ادا کیا تھا۔

اسی طرح گزشہ برس بھی ٹی ایل پی کا دارالحکومت کی جانب مارچ ایک معاہدے کی صورت ہی میں ختم ہوا تھا۔

SEE ALSO: تحریک لبیک کے دھرنوں کی تاریخ، کب کیا ہوا؟

اس بار بھی ایک معاہدے میں کرائی گئی یقین دہانیوں کے بعد حالات معمول پر لانے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ لیکن مفتی منیب الرحمن حالیہ معاہدے کو ماضی میں ہونے والے معاہدوں سے مختلف قرار دیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ماضی کے معاہدوں میں سویلین نمائندگی تھی جب کہ ریاستی نمائندگی نہیں تھی۔ لیکن اب وزیر اعظم عمران خان نے بھی اسے تسلیم کیا ہے اور دیگر ریاستی اداروں کو بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

ٹی ایل پی کا مستقبل

پاکستان کے وفاقی وزیر برائے اطلاعات فواد چوہدری کہتے ہیں کہ مذہبی شدت پسند گروہ ہجوم کو اکٹھا کر کے پرتشدد کارروائیوں کی صلاحیت تو رکھتے ہیں البتہ سیاست میں ان کا عملی کردار بہت مختصر ہے۔

سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ سنی تحریک ایک موقع پر ٹی ایل پی سے زیادہ شدت پسند جماعت تھی البتہ یہ جماعت جلد ختم ہو جائے گی۔ ایسی جماعت سے اتحاد کا مطلب تنہائی ہے۔

مفتی منیب الرحمن ٹی ایل پی کے بارے میں کہتے ہیں کہ کوئی ثابت کر دے کہ ٹی ایل پی کا کوئی ڈیتھ سیل یا ڈیتھ اسکواڈ یا بھتہ سیل ہے تو وہ اُن سے الگ ہو جائیں گے۔ بعض ناقدین کہتے ہیں کہ ٹی ایل پی اس معاہدے کے بعد مزید خطر ناک ہو کر سامنے آئے گی تو ایسا نہیں ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ ٹی ایل اپی کا موازنہ ان لوگوں یا جماعتوں سے نہ کیا جائے جن کے ڈیتھ سیل تھے۔

دوسری جانب حکومت اور ٹی ایل پی کے معاہدے پر عمل درآمد کرانے والی کمیٹی کے کنوینئر اور وزیرِ مملکت علی محمد خان کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم موجودہ معاہدے کی تمام تفصیلات سے باخبر ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

کالعدم ٹی ایل پی کے کارکنوں کی پولیس سے جھڑپیں

نجی ٹی وی چینل 'جیو نیوز' سے گفتگو کرتے ہوئے علی محمد خان کا کہنا تھا کہ سات سے 10 دن میں معاہدے پر عمل درآمد کی صورت میں سعد رضوی کی رہائی سمیت دیگر تفصیلات سامنے آ جائیں گی۔ وہ کالعدم جماعت ٹی ایل پی کو قومی دھارے میں خوش آمدید کہیں گے۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ فرانس کے سفیر کی بے دخلی پر پارلیمنٹ جو فیصلہ کرے گی، ٹی ایل پی اسے قبول کرے گی۔

مقدمات کا کیا ہوگا؟

محکمۂ داخلہ پنجاب نے صوبے بھر میں ٹی ایل پی کے 1800 سے زائد ایسے افراد کو رہا کر دیا ہے جنہیں نقصِ امن کے تحت نظر بند کیا گیا تھا۔ محکمۂ داخلہ کے مطابق ایسے افراد کو رہا کیا جا رہا ہے جن کے خلاف مقدمات درج نہیں ہیں۔

اس سوال پر کہ عدالتوں میں چلنے والے مقدمات ختم ہونے کی یقینی دہانی کیسے کرائی جا سکتی ہے؟ مفتی منیب الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ہم اس ملک میں رہتے ہیں۔ میں تمام تکنیکی باتوں کو جانتا ہوں ان باتوں کو سامنے رکھ کر ہی معاہدہ کیا گیا ہے۔

قبل ازیں مذاکراتی کمیٹی میں شامل تین افراد نے 'رائٹرز' کو بتایا تھا کہ حکومت لاہور ہائی کورٹ میں ٹی ایل پی کے امیر سعد رضوی کی رہائی کے خلاف دائر درخواست واپس لے گی اور تحریک کے زیرِ حراست 2300 کارکنوں کی رہائی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ڈالے گی۔

Your browser doesn’t support HTML5

ٹی ایل پی: 'معاملہ مِس ہینڈلنگ کا نہیں، مسئلہ بلاسفیمی کا ہے'

بیانات میں تلخی

مفتی منیب نے کہا کہ وزرا سے متعلق ان کے بیانات میں تلخی کا تعلق رویتِ ہلال کمیٹی سے علیحدگی سے جوڑنا درست نہیں۔

انہوں نے کہا کہ بعض وزرا نے ٹی ایل پی کو بھارتی ایجنٹ کہا۔ ان کے نزدیک کسی محبِ وطن پاکستانی کے لیے اس طرح کی بات گالی سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہو سکتی۔ میرا ردعمل اس معاملے پر تھا۔ اگر ایسے الزامات دوبارہ سامنے آئیں گے تو میرا ردعمل پھر ایسا ہی ہوگا۔