’’مفتی عبد الشکور سادہ طبعیت کے مالک تھے۔ وہ شام میں زیادہ تر اپنی گاڑی خود ہی چلا کر جہاں جانا ہوتا تھا، نکل جاتے تھے۔ وہ ڈرائیور اور محافظ بھی ساتھ نہیں رکھتے تھے۔ اکثر ان کا کہنا ہوتا تھا کہ ان کے ڈرائیور اور گن مین کی ڈیوٹی کا وقت ختم ہو گیا ہے تو انہیں تنگ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘
یہ کہنا ہے سینئر صحافی سبوخ سید کا جن کی مفتی عبدالشکور کے ساتھ کئی ملاقاتیں رہیں۔
اسلام آباد میں وفاقی وزیر کی گاڑی کو حادثے کے حوالے سے سبوخ سید نے مزید بتایا کہ مفتی عبدالشکور میریٹ ہوٹل سے سیکرٹریٹ اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرکے جا رہے تھے ۔ اسی دوران 110 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے آنےوالے پک اپ نے ان کی گاڑی کو مکمل تباہ کر دیا۔
سبوخ سید کا کہنا تھا کہ مفتی عبدالشکور جمعیت علماء اسلام (ف) میں بہت اہمیت رکھتے تھے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مذہبی امور جیسی اہم وزارت پر مولانا فضل الرحمٰن نے انہیں وزیر بنوایا۔
اناللہ واناالیہ راجعون وفاقی وزیر مذھبی امور مفتی عبدالشکور صاحب کار حادثے میں شہید ہوگئے۔😭
— Mufti Abdul Shakoor (@MuftishakoorJUI) April 15, 2023
ان کے بقول مولانا فضل الرحمٰن کے انتہائی قریب ہونے کی وجہ سے اکثر حکومتی سطح پر مذاکرات اور بات چیت میں بھی انہیں اہمیت حاصل ہوتی تھی۔
حادثے کی ابتدائی رپورٹ
اسلام آباد پولیس کے تھانہ سیکریٹریٹ نے واقعے سے متعلق ایف آئی آر درج کرلی ہے اور حادثہ کی شکار دونوں گاڑیوں کو تھانہ منتقل کرنے کے بعد فرانزک ٹیموں کی مدد سے حقائق جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
حادثے کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق یہ حادثہ تیز رفتاری کے باعث پیش آیا ،جس سڑک پر یہ حادثہ ہوا وہاں عموماً 50 کلومیٹر فی گھنٹہ کی اسپیڈ کی اجازت ہے۔ یہاں کی سڑکیں تین لین کی ہیں جن پر اکثر تیز رفتاری سے گاڑیاں چلائی جاتی ہیں اور کوئی اسپیڈ کیمرہ بھی نصب نہیں ہے۔ البتہ سیف سٹی کے کیمرے بڑی تعداد میں نصب ہیں، جن سے اس حادثے کی فوٹیج بھی حاصل ہوئی ہے۔
جس گاڑی سے یہ حادثہ ہوا اس کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ وہ اسلام آباد سے سابق رکن قومی اسمبلی اور جماعت اسلامی کے رہنما میاں اسلم کی کمپنی کی گاڑی ہے۔
میاں اسلم کا کہنا ہے کہ یہ گاڑی ان کے بھائی کے اہلِ خانہ کے زیرِ استعمال تھی اور ان کا اس گاڑی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
Accidental and untimely demise of Religious Minister Mufti Abdul Shakoor is Shocking to say the least.Reminder of how temporary this world is. May Allah bless his soul & give Sabr to his Family 🤲🏻 #آہ_مفتی_عبدالشکور pic.twitter.com/IJUvfZ3dgw
— Mona Alam (@MonaAlamm) April 15, 2023
اس حادثے میں مفتی عبد الشکور کی موت ہوئی ہے جب کہ دوسری گاڑی میں سوار تین افراد زخمی ہوئے ہیں۔ جو پولی کلینک اسپتال میں زیرِ علاج ہیں جب کہ دو افراد کو حراست میں لے کر پولیس نے ان کے بیانات حاصل کر لیے ہیں۔
حادثے کے بعد مختلف پہلوؤں کا جائزہ بھی لیا جا رہا ہے کہ حادثے کے وقت گاڑی کا کوئی بھی ایئربیگ نہیں کھلا۔
اس کے علاوہ دوسری گاڑی میں سوار افراد کا میڈیکل چیک اپ بھی کرایا جا رہا ہے کہ ان میں سے ڈرائیور یا کوئی اور شخص کسی نشہ کے زیرِ اثر تو نہیں تھا۔
حادثے کے بعد مفتی عبدالشکور کو ایک پرائیویٹ گاڑی میں پولی کلینک اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں ڈاکٹرز نے ان کی جان بچانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔
ابتدائی رپورٹ کے مطابق مفتی عبدالشکور کے سر میں لگنے والی چوٹ ان کی ہلاکت کا باعث بنی جب کہ شدید ٹکر کے باعث ان کے جسم کی کئی ہڈیاں بھی ٹوٹ گئی تھیں۔
مفتی عبدالشکور کی سیاست
مفتی عبد الشکور نے پارلیمانی سیاست کا آغاز دس برس قبل 2013 میں کیا تھا جب انہوں نے فاٹا سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا لیکن کامیابی حاصل نہ کرسکے۔
اس کے بعد مفتی شکور نے 2018 میں فاٹا سے قومی اسمبلی کے حلقے این اے- 51 سے متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔
مفتی عبدالشکور کا تعلق لکی مروت کے گاؤں تاجبی خیل سے تھا۔ مفتی شکور نے فلسفے اور اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹرز کیا جب کہ وہ مختلف مدارس میں فقۂ بھی پڑھاتے رہے۔
Former Prime Minister Syed Yusuf Raza Gillani at funeral prayers for Federal Minister of Religious Affairs Maulana Abdul Shakoor, praying for his departed soul to rest in peace. Our thoughts and condolences go out to his family and party during this difficult time. pic.twitter.com/m10xGqEGYR
— Kasim Gilani (@KasimGillani) April 16, 2023
وہ پشاور میں ایک مسجد کے باقاعدہ خطیب بھی تھے اور اسی مسجد سے ملحقہ مدرسے میں طلبہ کو پڑھاتے بھی تھے لیکن وفاقی وزارت ملنے کے بعد انہوں نے مدرسے میں تعلیم دینے کا سلسلہ مؤخر کر دیا تھا۔
وہ جے یو آئی (ف) فاٹا کے امیر تھے اور گزشتہ سال اپریل میں حکومت تبدیل ہونے کے بعد انہیں وفاقی وزیر برائے مذہبی امور کا قلم دان دیا گیا تھا۔
بعض سیاسی مبصرین ان کی وزارت میں کارکردگی دیگر وزرا کے مقابلہ بہتر سمجھتے تھے کیوں کہ گزشتہ برس حج کے اخراجات میں اگرچہ اضافہ ہوا تھا۔ تاہم انہوں نے سعودی حکام سے مذاکرات اور مشاورت کے ذریعے حاجیوں کے لیے کئی مراعات حاصل کیں اور پانچ ارب روپے سے زائد رقم بھی حاجیوں کو واپس کرائی۔
رواں سال بھی وہ حج اخراجات کم کرنے کی کوشش کررہے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ سعودی حکام سے اخراجات کم کرانے کے باوجود بھی روپے کی تنزلی کی وجہ سے اخراجات بڑھے ہیں، جس پر وہ مجبور ہیں۔ ان دنوں بھی وہ حج کی تیاریوں کی وجہ سے مصروف تھے اور ان کا زیادہ وقت وزارت کے دفتر میں ہی گزرتا تھا۔
مفتی عبدالشکور نے پسماندگان میں ایک بیٹا اور دو بیوہ چھوڑی ہیں۔
Saddened to learn of the passing away of Federal Minister for Religious Affairs Mufti Abdul Shakoor in a road accident. Condolences to his family. May he rest in peace. pic.twitter.com/bjzKrbeuH9
— Mohsin Dawar (@mjdawar) April 15, 2023
ان کی ایک نماز جنازہ ان کی ہلاکت کے چند گھنٹوں بعد اسلام آباد اور دوسری ان کے آبائی علاقے لکی مروت میں ادا کیے جانے کے بعد ان کی تدفین کردی گئی۔
مفتی عبداشکور کی ہلاکت پر صدر وزیراعظم سمیت سعودی سفیر، وفاقی وزرا اور دیگر نے افسوس کا اظہار کیا ہے۔
متنازع بل
اس واقعہ کے بعد سوشل میڈیا پر مفتی عبدالشکور کے حادثے پر بعض ایسے بیانات بھی سامنے آرہے ہیں جن میں ان کی طرف سے قومی اسمبلی میں قانون سازی کے لیے بھجوائے جانے والے بل کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔
تحفظِ ناموس صحابہ بل رواں سال جنوری میں قومی اسمبلی میں منظور کیا گیا تھا جس کے مطابق صحابہ کی توہین کرنے پر موجودہ تین سے پانچ سال سزا کو کم از کم سزا 10 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ کرنے کی منظوری دی گئی تھی۔
I, along with the Federal Minister for Overseas Pakistani%27s & HRD, @SajidTuriPPP , paid a visit to Maulana Fazal ur Rehman and offered Fateha for the late Federal Minister for Religious Affairs Maulana Abdul Shakoor.We share the grief in this difficult time. pic.twitter.com/7RKYESVmFG
— Faisal Karim Kundi (@fkkundi) April 16, 2023
بل کے مطابق اس بات کا تعین کیا جائے گا کہ توہین کرنے والے نے کون سے الفاظ استعمال کیے، الفاظ شدید توہین کے زمرے میں آئے تو سزا عمر قید بھی ہوسکتی ہے۔
اس بل کے حوالے سے بعض افراد کی طرف سے کہا جا رہا تھا کہ اس بل کو ایک مخصوص مذہبی فرقے کو ٹارگٹ کرنے کے لیے بنایا جا رہا ہے۔ تاہم وزارت مذہبی امور کی طرف سے ایسی کسی بھی اطلاع کی تردید کی گئی تھی۔