رسائی کے لنکس

پلوامہ حملے پر کشمیر کے سابق گورنر کا بیان، 'مودی کو خاموشی توڑنی چاہیے'


بھارت کی اپوزیشن جماعت کانگریس نے 2019 کے پلوامہ حملے سے متعلق سابق گورنر جموں و کشمیر ستیا پال ملک کے الزام پر وزیرِاعظم نریندر مودی پر تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ مودی کو ستیا پال کے الزامات پر "خاموشی توڑنی" چاہیے۔

بھارت کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیا پال ملک نےبھارتی میڈیا ادارے دی وائر کے صحافی کرن تھاپر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ پلوامہ میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے قافے پر حملہ بھارتی نظام خاص طور پر سی آر پی ایف اور وزارت داخلہ کی 'نااہلی' اور 'لاپروائی' کا نتیجہ تھا۔

پلوامہ حملے کے وقت بھارت کے وزیرِ داخلہ راج ناتھ سنگھ تھے جو اس وقت وزیرِ دفاع ہیں۔

واضح رہے کہ فروری 2019 میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سیکیورٹی فورسز کے قافلے پر خود کش حملہ ہوا تھا جس میں 40 سے زائد اہل کار مارے گئے تھے۔ نئی دہلی نے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا تھا۔

ستیا پال نے بتایا کہ سی آر پی ایف نے اپنے جوانوں کو لے جانے کے لیے طیارے مانگے تھے لیکن وزارتِ داخلہ نے اس سے انکار کردیا تھا۔ ان کے بقول جس راستے سے قافلے کو گزرنا تھا اس کی صحیح سے صفائی بھی نہیں کی گئی تھی۔

سابق گورنر کا کہنا تھا کہ ان تمام کوتاہیوں کے بارے میں براہ راست نریندر مودی کو اس وقت بتایا گیا جب پلوامہ حملے کے بعد انہوں نے کوربیٹ پارک کے باہر سے انہیں کال کی تھی۔

ان کے بقول میں نے وزیرِاعظم کو کہا کہ "یہ ہماری غلطی سے ہوا ہے۔ اگر ہم طیارہ دے دیتے تو یہ نہیں ہوتا۔ اس پر مودی نے انہیں کہا تھا کہ "وہ چپ رہیں اور کسی کو نہ بتائیں۔ اسی طرح قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول نے بھی ان سے کہا کہ وہ خاموش رہیں اور اس بارے میں بات نہ کریں۔"

ستیا پال ملک کا کہنا تھا کہ وہ اس کے بعد فوری طور پر سمجھ گئے تھے کہ اس کا مقصد پاکستان پر الزام لگانا اور حکومت اور بی جے پی کو انتخابی فائدہ پہنچانا ہے۔

سابق گورنر کا کہنا تھا کہ پلوامہ واقعے میں انٹیلی جنس کی سنگین ناکامی تھی کیوں کہ 300 کلو دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑی پاکستان سے آئی لیکن وہ 10 سے 15 دن جموں و کشمیر کی سڑکوں اور دیہات میں گھومتی رہی اور کسی کو پتا نہیں چلا۔

حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) یا وزیرِ اعظم مودی کے دفتر سے اس حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ تاہم وزیرِ اعظم مودی دہشت گردی روکنے میں ناکامی کے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔

ادھر بھارت کی نیوز ویب سائٹ دی کوئنٹ کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ستیا پال ملک کے دعوؤں کو محض ریٹنگ کی کوشش قرار دیا ہے اور سوال کیا ہے کہ وہ اتنے برسوں سے کیوں خاموش تھے۔

تاہم کانگریس نے کہا کہ ہمارے جوان اپنے محفوظ سفر کے لیے صرف پانچ طیارے مانگتے رہے لیکن مودی حکومت نے منع کردیا اور انہیں مجبوراً بس میں سفر کرنا پڑا۔

انہوں نے کہا کہ اس غلطی سے ہمارے جوان ہلاک ہوگئے اور وزیرِاعظم مودی اپنی ساکھ بچانے میں مصروف ہیں۔ ہماری اپنی ساکھ اپنے جوانوں سے زیادہ عزیز ہوگئی ہے۔

پلوامہ میں کیا ہوا تھا؟

بھارت کے زیرِِ انتظام کشمیر کے صدر مقام سرینگر سے 21کلو میٹر جنوب میں14 فروری 2019 کو سی آر پی ایف کے ایک قافلے پر خود کش حملہ کیا گیا تھا۔

نئی دہلی نے حملے کے بعد ردِ عمل کے طور پر منقسم کشمیر کے درمیان چلنے والی بس سروس 'کارروانِ امن ' بند کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔بھارت نے اس حملے کی ذمہ داری پاکستان کی ایک عسکری تنظیم 'جیشِ محمد' پر عائد کی تھی۔

پاکستان نے پُلوامہ حملے میں کسی بھی طرح ملوث ہونے سے انکار کیا تھا ۔

پلوامہ حملے کے بارے میں پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ یہ ایک قابلِ تشویش واقعہ تھا لیکن اس کی ذمے داری کو پاکستان سے جوڑنا سراسر غلط اور بے بنیاد الزام ہے۔

اس حملے کے فوراً بعد پاکستان کے اس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ اس حملے کی منصوبہ بندی یقینی طور پر بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں کی گئی تھی۔ یہ ایک ایسا منصوبہ تھا جس پر عمل درآمد بھی مقامی طور پر کیا گیا تھا۔ پاکستان کا اس کارروائی سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔

XS
SM
MD
LG