امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی سمجھتے ہیں کہ کشمیر کے حالات اُن کے کنٹرول میں ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے پیر کو فرانس کے شہر بیراٹز میں جی سیون ممالک کے اجلاس کے دوران ملاقات کی۔
صدر کا کہنا تھا کہ انہوں نے پاکستان سے بھی بات کی ہے اور وہ امید کرتے ہیں کہ اس معاملے میں ہم کچھ اچھا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
ملاقات کے بعد دونوں رہنماؤں نے ذرائع ابلاغ سے بات کی۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے تمام معاملات دو طرفہ ہیں اس لیے ہم دنیا کے کسی ملک کو یہ زحمت نہیں دیتے کہ وہ مداخلت کریں۔
#WATCH: US President Donald Trump during bilateral meet with PM Modi at #G7Summit says,"We spoke last night about Kashmir, Prime Minister really feels he has it under control. They speak with Pakistan and I%27m sure that they will be able to do something that will be very good." pic.twitter.com/FhydcW4uK1
— ANI (@ANI) August 26, 2019
نریندر مودی کا کہنا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ بھارت اور پاکستان جو 1947 سے پہلے ایک ہی تھے مل جل کر اپنے مسائل پر بات کر سکتے ہیں۔
نریندر مودی نے کہا کہ عمران خان جب وزیر اعظم بنے تو میں نے انہیں خط لکھ کر دعوت دی کہ دونوں ممالک غربت، ناخواندگی اور بیماریوں کے خلاف مل کر چلتے ہیں۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق صدر ٹرمپ کشمیر کے معاملے پر ثالثی کی پیشکش سے پیچھے ہٹ گئے ہیں اور بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد انہوں نے پاکستان اور بھارت کو باہمی تنازعات خود حل کرنے پر زور دیا ہے۔
#WATCH: Prime Minister Narendra Modi during bilateral meeting with US President Donald Trump at #G7Summit says,"All issues between India & Pakistan are bilateral in nature, that is why we don%27t bother any other country regarding them." pic.twitter.com/H4q0K7ojZT
— ANI (@ANI) August 26, 2019
صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس سے قبل کئی بار کشمیر کے معاملے پر ثالثی کی پیشکش کر چکے ہیں۔ گزشتہ ماہ وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکہ کے دوران بھی صدر ٹرمپ نے کشمیر کے معاملے پر ثالثی کی پیشکش کرتے ہوئے نریندر مودی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے اس معاملے پر ثالثی کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
بھارت نے صدر ٹرمپ کے اس بیان کی فوری تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت شملہ معاہدے کے تحت باہمی تنازعات دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے ہی حل کرنے کے پابند ہیں۔
بھارت کی جانب سے رواں ماہ 5 اگست کو اس کے زیر انتظام کشمیر کی نیم مختار حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کے بعد پاکستان اور بھارت کے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے تھے۔ پاکستان نے بھارت کے اس اقدام کو مسترد کرتے ہوئے معاملہ سلامتی کونسل میں اٹھایا تھا۔ جب کہ عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔
بھارت کا یہ موقف رہا ہے کہ یہ اس کا داخلی معاملہ ہے اور کشمیر میں حالات اس کے کنٹرول میں ہیں۔
پاکستان کے وزیر اعظم کا ہفتہ وار احتجاج کا اعلان
دوسری جانب پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان میں ہر ہفتے یوم احتجاج ہو گا جس میں کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کیا جائے گی۔
قوم سے خطاب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ رواں ہفتے جمعے کو 12بجے سے ساڑھے 12 بجے تک ملک بھر میں احتجاجی تقاریب منقعد ہوں گی۔ جس میں شہری شریک ہوں گے اور کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ستمبر کے آخر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہے اس اجلاس تک ہفتہ وار ایک دن میں 30 منٹ کا احتجاج کیا جائے گا۔
خطاب میں عمران خان نے مزید کہا کہ بھارت نے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف میں بلیک لسٹ کروانے کی کوشش کی اور مختلف ممالک پر دباؤ بھی ڈالا اس کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ اب بھارت سے بات نہیں ہو سکتی۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ نریندر مودی سے بڑی غلطی ہو گئی ہے اس سے کشمیر کی آزادی ممکن ہو گئی۔ مودی نے یہ تاریخی غلطی تکبر میں آکر کی جس سے کشمیر ایک بین الاقوامی ایشو بن گیا ہے۔ بھارت کی حکومت جس نظریے پر چل رہی ہے اس سے پہلے بھی دنیا میں تباہی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دیگر ممالک سے رابطہ کیا جبکہ سکیورٹی کونسل کا بھی اسی حوالے سے اجلاس ہوا۔ جس سے کشمیر کا معاملہ بین الاقوامی بنایا گیا۔
پاکستان کے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ میں کشمیر کا سفیر بنوں گا اور عالمی رہنماؤں کو آگاہ کروں گا کہ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے۔
انہوں نے اقوام متحدہ پر بھی مسئلے کے حل کے لیے زور دیا۔