بھارت میں کرونا کے وار اور ویکسین کے متعلق غلط معلومات کا سیلاب

بھارت میں کرونا کے وار اور ویکسین کے بارے میں غلط معلومات کا سیلاب

بھارت اس وقت، ایک طرف تو کرونا وائرس کی تباہ کاریوں کا سامنا کر رہا ہے اور دوسری طرف اسے سوشل میڈیا پر ٹونے ٹوٹکوں پر مبنی وڈیوز کے ذریعے پھیلنے والے غلط علاج، ویکسین کے مضر اثرات کے بارے میں ڈرانے والی کہانیوں اور وائرس کے پھیلاؤ میں مسلمانوں کے ملوث ہونے جیسے بے بنیاد دعوؤں اور غلط معلومات کے سیلاب کا سامنا ہے۔

خبر رساں ادارے، ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق، اذیت، مایوسی اور حکومت پر اعتماد کے فقدان کی وجہ سے پھیلنے والی افواہوں نے بھارت میں جاری انسانی بحران کو مزید ہوا دی ہے۔

حقائق کی جانچ کرنے والے خود مختار ادارے، فیکٹ کریسینڈو، کے شریک بانی راہول نیمبوری کہتے ہیں کہ وسیع پیمانے پر پھیلے خوف و ہراس کی وجہ سے غلط معلومات اور اطلاعات کا ایک سیلاب آیا ہوا ہے۔

واٹس ایپ پر ویڈیو میں ایک شخص کہہ رہا ہے کہ ناک میں لیموں کے رس کے دو قطرے ڈالنے سے کووڈ نائٹین کا علاج ممکن ہے، اور اس نے خود پر اسے آزمایا ہے۔

ٹویٹر اور فیس بک کے برعکس واٹس ایپ پر معلومات انکرپٹڈ ہوتی ہیں، یعنی ان تک بھیجنے اور وصول کرنے والے کے سوا کسی کی رسائی نہیں ہوتی۔

روایتی مذہبی لبادہ پہنے ایک شخص کہہ رہا ہے کہ اگر اس کی بات مان کر اعتقاد کے ساتھ وہ کیا جائے، جیسا وہ کہہ رہا ہے تو کرونا وائرس پانچ سیکنڈ میں ختم ہو جائے گا، اور لیموں کے قطرے، کسی ویکسین کی طرح، لوگوں کو وائرس سے تحفظ فراہم کریں گے۔

اے پی کے مطابق، زیادہ تر غلط معلومات اور اطلاعات واٹس ایپ کے ذریعے پھیلتی ہیں، جس کے صرف بھارت میں 400 ملین صارف ہیں۔ فیس بک اور ٹویٹر جیسی زیادہ کھلی ویب سائٹوں کے مقابلے میں واٹس ایپ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں پیغامات کے تبادلے تک کسی دوسرے کو رسائی نہیں مل سکتی۔

واٹس ایپ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن جیسے صحت عامہ کے اداروں اور حقائق کی جانچ کرنے والی تنظیموں کے ساتھ ملکر گمراہ کن یا خطرناک مواد کو محدود کرنے کیلئے سخت محنت کر رہا ہے۔

واٹس ایپ نے پیغامات کا جال پھیلانے کو روکنے کیلئے بھی حفاظتی اقدامات اٹھائے ہیں، اور ادارہ اپنے صارفین سے کہہ رہا ہے کہ وہ آن لائن معلومات کی تصحیح کر لیا کریں۔ یہ پلیٹ فارم بھارت اور دیگر دنیا میں اپنے صارفین کو اپنی سروس کے ذریعے ویکسین لگوانے سے متعلق معلومات فراہم کرنے کو بھی آسان بنا رہا ہے۔

لیموں کے رس سے کرونا کا علاج ایک بے ضرر ٹوٹکا ہوسکتا ہے، لیکن اس کے اثرات اتنے بے ضرر شائد نہ ہوں۔

لیموں کے رس سے علاج، ممکن ہے، ایک بے ضرر ٹوٹکا ہو، مگر ماہرین صحت کے مطابق ایسے ٹوٹکوں کے نتائج شائد اتنے بے ضرور ثابت ہوں۔ ایسے دعوؤں کے نتیجے میں لوگ ویکسین لگوانے سے گریز کر سکتے ہیں یا اس بارے میں دیگر رہنما اصولوں کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔

اس سال جنوری میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اعلان کہا تھا کہ بھارت نے کرونا وائرس پر قابو پا کر انسانیت کو بربادی سے بچا لیا ہے۔اس کے بعد زندگی معمول پر آنا شروع ہو گئی تھی، اور لوگ کرکٹ میچ دیکھنے، مذہبی میلوں اور سیاسی ریلیوں میں جانا شروع ہو گئے۔

چار ماہ بعد، مریضوں اور اموات کا ایک طوفان سا اٹھ کھڑا ہوا، ملک میں ویکسین کی دستیابی کم پڑ گئی، اور عوام کے اشتعال اور بے اعتمادی میں اضافہ ہوا۔

یونیورسٹی آف پینسلوینیا سے منسلک سیاسیات کی محقق اور بھارت میں پھیلنے والی غلط معلومات پر گہری نظر رکھنے والی سُمِترا بدری ناتھ کہتی ہیں کہ گزشتہ چند ہفتوں میں ان کی نظر سے گزرنے والا پراپیگنڈا اور سازشی نظریات انتہائی سیاسی نوعیت کے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ چند لوگ تو اسے حکومت پر تنقید کیلئے استعمال کر رہے ہیں، جبکہ دیگر اسے حکومت کی حمایت کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔

واٹس ایپ پیغامات سازشی تھیوریز عام کرنے کا ذریعہ بن رہے ہیں، اور نئے صارفین جانتے نہیں کہ کوئی انہیں غلط معلومات بھی پیغام کی شکل میں بھیج سکتا ہے۔

مغربی ملکوں کی تیار کردہ ویکسین اور صحت عامہ کی سہولتوں تک رسائی کے بارے میں شکوک و شبہات کی وجہ سے بھی ناقص علاج، دیسی ادویات اور ٹوٹکوں کے متعلق غلط اطلاعات پھیل رہی ہیں۔

ایک بھارتی شہری ستیا نارائن پرشاد نے لیموں کے قطروں والی ویڈیو دیکھی اور اس پر یقین کر لیا۔ ریاست اتر پردیش کے رہائشی اکیاون سالہ پرشاد کو جدید ادویات پر بھروسہ نہیں ہے اور ان کے پاس ایک تھیوری بھی ہے کہ کس وجہ سے ان کے ملک کے ماہرین ِصحت ویکسین لگوانے پر زور دے رہے ہیں۔

پرشاد کا کہنا ہے کہ اگر حکومت لیموں کے رس کے قطروں کی بطور علاج منظوری دیتی ہے تو پھر ویکسین کی تیاری پر جتنی رقم اس نے خرچ کی ہے وہ ضائع ہو جائے گی۔

وجے شنکر ایک نمایاں کاروباری شخصیت اور سابق سیاستدان ہیں۔ ان کا بھی کہنا ہے کہ لیموں کے رس کے بارے میں کئے گئے دعوے درست ہیں، ناک میں لیموں کے رس کے قطرے ڈالنے سے انسان کے جسم میں آکسیجن کی سطح میں اضافہ ہو گا۔

یہ بات تو درست ہے کہ وٹامن سی انسانی صحت اور قوت مدافعت کیلئے بہت ضروری ہے، لیکن ایسا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا کہ لیموں سے کرونا وائرس کا علاج ہو سکتا ہے۔

SEE ALSO: بھارت میں کرونا وبا سے بچنے کے لیے گائے کے گوبر کا ’اشنان‘


امریکہ میں رہنے والے بھارتی نژاد افراد بھی ایسے دعووں پر یقین کرنے اور انہیں پھیلانے میں مصروف ہیں۔

امریکی ریاست نیو جرسی کی رہائشی ایما سچ دیو، جن کے رشتہ دار بھارت میں ہیں، کہتی ہیں کہ وہاں یہ مانا جاتا ہے کہ لیموں کے روزانہ استعمال سے وائرس آپ کے قریب نہیں آئے گا۔

ایما کہتی ہیں ان کے بہت سے رشتہ دار وائرس کی لپیٹ میں آئے ہیں، لیکن پھر بھی وہ سماجی فاصلہ برقرار رکھنے جیسے اصول پر عمل نہیں کرتے، اور ان کے نزدیک مندر جانے سے وہ وائرس سے محفوظ رہیں گے۔

دنیا کے کئی ملکوں کی طرح بھارت میں بھی ویکسین اور اس کے مضر اثرات کے بارے میں غلط خبریں پھیل رہی ہیں۔

پینسلوینیا یونیورسٹی سے منسلک سُمِترا بدری ناتھ کہتی ہیں کہ ہو سکتا ہے آن لائن پھیلنے والی غلط معلومات کسی بے ضرر پڑوسی کے ذریعے آ رہی ہو۔ وہ کہتی ہیں کہ انٹرنیٹ کے نئے صارفین کے لئے تو شاید اس بات کا تصور بھی محال ہو کہ ان تک پہنچنے والی بعض معلومات غلط بھی ہو سکتی ہیں۔سمترا کے بقول "ان کیلئے تو غلط معلومات یا مس انفارمیشن کا پورا تصور اور نظریہ ہی انوکھا ہے"۔