بلوچستان میں ایک اور اسکول نذرِ آتش: 'جلانا ہے تو نشے کے اڈوں کو جلاؤ'

بلوچستان کے ضلع کیچ میں نامعلوم افراد نے رواں ہفتے ایک نجی اسکول کو نذر آتش کر دیا تھا جس کے بعد مقامی عمائدین کے ایک جرگے نےاپنی مدد آپ کے تحت اسکول کو دوبارہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ضلع کیچ کے علاقے بلیدہ الندور میں قائم نجی اسکول کلکشان کو نامعلوم افراد نے پیر اور منگل کی درمیانی شب نذر آتش کیا تھا۔ اس واقعے کے بعد علاقے میں خوف و ہراس پایا جاتا تھا جب کہ علاقہ مکین واقعے پر غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔

پولیس نے اسکول کو نذرِ آتش کرنے کے الزام میں نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ واقعے کی ذمے داری تاحال کسی شخص یا گروہ نے قبول نہیں کی تاہم پولیس واقعے کی تحقیقات کر رہی ہے۔

واقعے کے اگلے روز ایک عوامی جرگہ منعقد ہواجس میں علاقہ عمائدین، علما، نجی اسکولوں کے سربراہان، سماجی کارکنوں اور طلبہ کے والدین نے شرکت کی۔

جرگے نے فیصلہ کیا کہ متاثرہ اسکول کو چندہ جمع کر کے دوبارہ بحال کیا جائے گا اور مستقبل میں تعلیمی اداروں کے تحفظ کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت کوششیں کی جائیں گی ۔

جرگے نے اسکولوں میں چوکیدار تعینات کرنے اور سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنے پر بھی زور دیا۔

جرگے میں شریک علاقے کے ایک سماجی کارکن ظہور بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اسکول کو آگ لگانے میں تعلیم دشمن عناصر ملوث ہیں جو یہ نہیں چاہتے ہیں مقامی بچے پڑھ لکھ کر سماجی طور پر آزاد اور خود مختار ہوں۔

ان کے بقول: "ایسے لوگ شعور اور روشنی سے ڈرتے ہیں ان کو پتا ہے کہ یہ بچے پڑھ لکھ جائیں گے تو انہیں آسانی سے بد گمان نہیں کیا جاسکے گا۔"

ظہور بلوچ نے بتایا کہ کلکشاں اسکول کو نذر آتش کرنے کےبعد علاقے کے عوام بالخصوص والدین اور بچوں میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ علاقے میں امن و امان کی صورتِ حال کی بہتری کے لیے اقدامات کرے۔

متاثرہ اسکول کے ڈائریکٹر عارف بلوچ نے بتایا کہ اسکول کو نذر آتش کرنے کا واقعہ 17 اکتوبر کی شب تین بجے پیش آیا جب علاقہ مکین سو رہے تھے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "جب ہمسایے نے ہمیں جگایا کہ اسکول میں آگ لگی ہوئی ہے تو ہم وہاں پہنچے۔ اس وقت تک دو کلاسز مکمل طور پر چل چکی تھیں اور اہلِ علاقہ نے اپنی مدد آپ کے تحت پانی ڈال کر آگ بجھائی۔

سماجی کارکن عارف بلوچ کہتے ہیں ان کا علاقہ ایک پسماندہ علاقہ ہے جہاں بچوں اور بچیوں کے لیے معیاری تعلیم کے مواقع بہت کم ہیں۔ جس اسکول کو نذر آتش کیا گیا وہ 2016 میں قائم ہوا تھا جو ساتویں جماعت تک ہے اور یہاں غریب بچوں کو مفت تعلیم فراہم کی جارہی ہے۔

کیچ میں نجی تعلیمی اداروں کا کردار

ضلع کیچ کے سماجی کارکن اور تعلیمی ماہر ظہور بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے بلیدہ میں کلکشان اسکول جیسے 6 نجی اسکول قائم ہیں جن میں تین ہزار سے زائد طلبہ تعلیم حاصل رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کچھ سال قبل ان کے اپنے اسکول میں بھی اسی طرح فائرنگ کا واقعہ پیش آیا۔

ایسے واقعات کے پیچھے کون لوگ یا گروہ ملوث ہوسکتے ہیں اس بارے میں تو ظہور بلوچ نے کچھ نہیں بتایا البتہ ان کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات کے پیچھے ایسے تعلیم دشمن عناصر کا ہاتھ ہو سکتا ہے جو یہ نہیں چاہتے کہ ہمارے بچے تعلیم حاصل کریں۔

انہوں نے بتایا کہ ضلع کیچ بلوچستان میں تعلیم کے حوالے سے اپنا ایک مقام رکھتا ہے اور اس میں نجی تعلیمی اداروں کا کردار سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے اب یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ کون لوگ ہیں جو تعلیم کے خلاف ہیں۔

'اسکول کے بجائے نشے کے اڈوں کو جلاؤ'

نذرِ آتش ہونے والے اسکول کے طلبہ جہاں اس واقعے پر خوف کا شکار ہیں وہی وہ ایسے عناصر کو واضح پیغام بھی دے رہے ہیں کہ وہ کسی بھی صورت اس عمل کو برداشت نہیں کریں گے۔

پانچویں جماعت کے طالب علم " ادریس فضل نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا کہ جس کلاس میں ہم تعلیم حاصل کررہے تھے اگلے روز صبح جب اسکول آئے تو دیکھا کی اس کے کلاس روم کو جلا دیا گیا ہے۔ ہمارے ڈیسک اور کلاس کا سارا سامان ہی جل گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے اسکول کو نذر ِآتش کیا ہے ان کو میرا پیغام ہے کہ یہ ہماری درس گاہ ہے جہاں ہم علم حاصل کرتے ہیں اگر جلانا ہی ہے تو شہر میں ان منشیات کے اڈوں کو جلایا جائے جو کئی لوگوں کی زندگیاں برباد کررہے ہیں۔

ادریس فضل کا مزید کہنا تھا کہ آج ان لوگوں نے ہمارے اسکول کو جلا دیا ہے اگر ہم اس عمل کے خلاف کھڑے نہ ہوئے تو یہ لوگ کل ہمیں اس سے بڑا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

کلکشان اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والے ایک طالب علم کے والد جان محمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اس عمل پر افسوس کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں کیوں کہ یہ واقعات ہمارے معاشرے میں خرابی پیدا کرنے کے مترداف ہے حکومت اسکولوں اور طلبہ کو تحفظ فراہم کرنے میں اپنا کرادار ادار کرے۔

بلوچستان حکومت کا مؤقف

بلوچستان میں حکمران جماعت کے رکن صوبائی اسمبلی ظہور بلیدی نے ٹوئٹر پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو تعلیمی اداروں کو فتح کرنا چاہتے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ شرپسند عناصر چاہتے ہیں کہ طلبہ تعلیم کے بجائے انتہا پسندی کی جانب راغب ہوں۔

ظہور بلیدی نے کہا ہے کہ اسکول کی دوبارہ تعمیر میں بھرپور معاونت کی جائے گی اور تعلیم دشمن عناصر کو اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔