پاکستان کی وفاقی کابینہ نے خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں برتری حاصل نہ کرنے اور بڑھتی مہنگائی اور عوامی ردِعمل کے پیش نظر 360 ارب روپے کے منی بجٹ اور اسٹیٹ بینک خود مختاری بل کی منظوری مؤخر کر دی ہے۔
حکومت عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی شرط کے مطابق بالواسطہ ٹیکسوں کی مد میں 360 ارب روپے حاصل کرنے کے لیے ضمنی مالیاتی بل 2021 کو کابینہ کی منظوری لینے کابینہ اجلاس میں لائی تھی۔ البتہ اس معاملے کو آخری لمحات میں روک دیا گیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس اس وقت آئی ایم ایف کی شرائط ماننے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔ ان کے بقول منی بجٹ نہ لانے کی صورت میں آئی ایم ایف کی طرف سے ایک ارب ڈالر کی قسط پاکستان کو نہیں ملے گی اور پاکستان کے لیے ادائیگیوں کا توازن برقرار رکھنا مشکل ہوجائے گا۔
خیال رہے کہ آئی ایم ایف کا بورڈ اجلاس آئندہ ماہ 12 جنوری کو ہونا ہے اور اگر پاکستان آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر قرض کی قسط حاصل کرنا چاہتا ہے تو پارلیمان کو منی بجٹ اور اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کے بلوں کو منظور کرنا ہو گا۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے دونوں بلوں کی منظوری مؤخر کرنے کا فیصلہ ایسے وقت میں کیا ہے جب اسے اپنے گڑھ سمجھے جانے والے خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں برتری نہیں حاصل ہوئی ہے۔
کچھ حکومتی ارکان خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں سبقت نہ لینے کی وجہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی قرار دے رہے ہیں۔
'آئی ایم ایف کے سوا کوئی آپشن نہیں'
پاکستان کی موجودہ حکومت پر مہنگائی کی لہر کی وجہ سے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور اس دباؤ میں خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کی کارکردگی نے مزید اضافہ کردیا ہے۔
ایسی صورتِ حال میں بعض حلقوں کی جانب سے یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ کیا پاکستان آئی ایم ایف کے ایک ارب ڈالر کی قسط کو مسترد کرتے ہوئے منی بجٹ نہ لانے کا فیصلہ کرسکتا ہے؟
قائد اعظم یونیورسٹی میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے پروفیسر عبدالجلیل کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کے پاس آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔
ان کے بقول اگر پاکستان آئی ایم ایف کے پاس نہ گیا تو ایک ارب ڈالر نہیں ملیں گے۔ اور پاکستان جب آئندہ پروگرام کے لیے عالمی مالیاتی ادارے سے بات کرے گا تو یہ مسئلہ آئے گا کہ پاکستان نے اپنا پروگرام مکمل نہیں کیا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد آئی ایم ایف پروگرام لینے میں تاخیر کی اور پاکستان کو اس کا نقصان اٹھانا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس وقت تک آئی ایم ایف سے جان نہیں چھڑا سکتا جب تک پاکستان کی معیشت کے بنیادی ڈھانچے میں اصلاحات نہیں کی جاتیں۔
ڈاکٹر عبدالجلیل سمجھتے ہیں کہ حکومت نے معیشت کی خراب صورتِ حال پر کچھ ایسے فیصلے کیے جن کی وجہ سے حکومت کو مزید مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے کچھ دن کے لیے ایکسچینج ریٹ کو مارکیٹ پر چھوڑا اور جب پاکستانی روپے کی قدر زیادہ کم ہوئی تو مارکیٹ میں ڈالر ڈال دیے۔ البتہ اس سے ہوا یہ کہ مارکیٹ میں ڈالر بھی آگئے اور ایکسچینج ریٹ بھی 180 تک پہنچ گیا۔
ڈاکٹر عبدالجلیل کے مطابق پاکستان کی حکومت اب اس مشکل صورتِ حال میں آگئی ہے کہ اسے دوبارہ آئی ایم ایف کی طرف ہی دیکھنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ اگر ہم ساٹھ سال سے بار بار آئی ایم ایف کے پاس جا رہے ہیں تو اس کا مطلب ہماری معیشت کے بنیادی ڈھانچے میں مسائل ہیں۔
'منی بجٹ اور اسٹیٹ بینک بل آئندہ ہفتے لایا جائے گا'
پاکستان کی حکومت کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے قرض کی قسط حاصل کرنے کے لیے ان کی شرائط کے مطابق منی بجٹ اور اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کا بل آئندہ کابینہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔ جہاں اس کی منظوری لی جائے گی۔
وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کہتے ہیں یہ لازمی ہے کیوں کہ ملک کی معیشت کے لیے بل منظور کرنا ہوں گے۔
البتہ حکومت کے پاس 12 جنوری سے قبل بل کی منظوری کے لیے وقت کم ہے۔
اس بارے میں ایک اعلیٰ حکومتی ذریعہ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حکومت ایک مرتبہ پھر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس پر غور کر رہی ہے۔ کیوں کہ ان کے بقول حکومت نے آئی ایم ایف سے بات کی تھی کہ فنانس بل میں ترمیم کے ذریعے منی بجٹ لانے اور اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کا بل فوری کے بجائے اگر آرڈیننس لایا جائے تو کچھ وقت حاصل کیا جاسکتا ہے۔
SEE ALSO: قومی اسمبلی کا منی بجٹ پر اجلاس مؤخر؛ ’عوام پر منفی اثرات مرتب ہوں گے’مذکورہ ذریعہ کے مطابق البتہ آئی ایم ایف نے اس سے انکار کردیا جس کے بعد اب حکومت پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلانے پر غور کر رہی ہے اور کسی بھی وقت مشترکہ اجلاس بلا کر قانون سازی کرسکتی ہے۔
حکومت ملک کی معیشت کو مستحکم قرار دے رہی ہے جب کہ ملک پر معاشی بوجھ کا ذمہ دار ماضی کی حکومتوں کو ٹھیرا رہی ہے۔
وفاقی وزیر فواد چوہدری کے مطابق ملک کے تمام معاشی اشاریے مثبت انداز پیش کر رہے ہیں۔ ان کے بقول ملک کی مالی صورتِ حال واضح طور پر مستحکم ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک کو اس سال 12 اعشاریہ 27 ارب ڈالر اور اگلے سال ساڑھے 12 ارب ڈالر واپس کرنے ہیں۔ یہ قرض سابق وزیرِاعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری نے لیے تھے۔ ان پانچ برسوں کے دوران ہمیں مجموعی طور پر 55 ارب ڈالر واپس کرنے ہوں گے۔
اپوزیشن مخالفت کے لیے تیار
پاکستان کی دو بڑی اپوزیشن جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) پہلے ہی اعلان کر چکی ہیں کہ وہ حکومت کو منی بجٹ منظور نہیں کرانے دیں گی۔
قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف شہباز شریف نے رواں ماہ ایک بیان میں کہا تھا کہ پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی کے منی بجٹ کی منظوری قومی خود کشی کے مترادف ہو گی۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ منی بجٹ کی منظوری روکنے کے لیے مشترکہ اپوزیشن اتفاق رائے سے اجتماعی حکمت عملی تیار کرے گی کیوں کہ منی بجٹ سے ملک کی معاشی صورتِ حال ابتر ہو جائے گی۔
اپوزیشن جماعتیں حکومت کی جانب سے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے حالیہ فیصلے اور گھریلو صارفین کے لیے گیس کی قلت پر پارلیمان میں احتجاج کی تیاریاں کر رہی ہیں۔ اور اس معاملے پر بعض حکومتی اراکین بھی ممکنہ طور پر اپوزیشن کا ساتھ دے سکتے ہیں۔
حکمران جماعت کے رکن قومی اسمبلی فہیم خان کی جانب سے کراچی کے شہریوں کو گیس کی عدم فراہمی اور کم پریشر سے متعلق ایک توجہ دلاؤ نوٹس بھی قومی اسمبلی اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کیا گیا ہے۔
آئی ایم ایف کے مطالبات کیسے پورے ہو سکتے ہیں؟
البتہ ڈاکٹر عبدالجلیل کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول کی ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ لیکن رقم دینے کے معاملے میں آئی ایم ایف بورڈ تمام معاملات کی مںظوری دیتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کا پاکستان سے مطالبہ ہے کہ اپنا تجارتی خسارہ اور بجٹ خسارہ کنٹرول کریں۔ لیکن پاکستان ایسا نہیں کر پا رہا۔
ان کے بقول پاکستان کو اپنی معیشت بہتر کرنے کے لیے ٹیکس نیٹ بڑھانا ہو گا یا پھر اپنے اخراجات کم کرنے ہوں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان اپنے اخراجات کنٹرول نہیں کر پا رہا۔ ٹیکس نیٹ بڑھانے کے بجائے ڈائریکٹ ٹیکسز میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔
عبدالجلیل کہتے ہیں آئی ایم ایف کا اب مطالبہ ہے کہ 360 ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگائے جائیں۔ آئی ایم ایف کا یہ مطالبہ پری ریکوزٹ ہے یعنی بورڈ ہونے سے پہلے یہ ٹیکسز لگائے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بغیر وہ قرض کی ادائیگی پر بات ہی نہیں کریں گے۔ موجودہ حالات میں لگ رہا ہے کہ آئی ایم ایف یہ اجلاس ہی نہیں بلائے گا۔ اور پاکستان کو ایک ارب ڈالر نہیں دے گا۔ ان کے بقول اگر منی بجٹ نہیں آتا تو پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام سے باہر ہو گا۔
اس تمام صورتِ حال میں حل کیا ہے، اس پر پرفیسر عبدالجلیل کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ہر حال میں اپنا ریونیو بڑھانا ہو گا۔ اس وقت پاکستان کی معیشت انتہائی مشکل صورتِ حال میں ہے۔ تمام معاملات انتہائی حد تک بڑھ چکے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے بقول آئی ایم ایف کے ایک ارب ڈالر ملنے سے وقتی طور پر بہتری ہو گی لیکن یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام نہیں ہے۔ یہ پروگرام مکمل ہونے کے بعد یہ حکومت یا کوئی بھی نئی حکومت لازمی طور پر آئی ایم ایف کے پاس جائے گی۔
پاکستانی معیشت پر مزید بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مسئلہ درآمدات کا بڑھنا نہیں بلکہ برآمدات کا نہ بڑھنا ہے۔ اس وقت پاکستانی درآمدات خطے کے دیگر ممالک کے مقابلہ میں بہت کم ہیں۔ اگر فی شخص کے حساب سے دیکھا جائے تو پاکستانی درآمدات صرف 70 سے 80 ڈالر فی شخص ماہانہ ہیں جس میں تین اور خوراک کی اشیا بھی شامل ہیں۔
البتہ انہوں نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی برآمدات نہیں بڑھ رہیں جس کی وجہ سے پاکستانی معشیت کسی طور سنبھلنے میں نہیں آ رہی۔ ان کے بقول جب تک پاکستان دنیا کو سامان نہیں بیچے گا آپ کی صورتِ حال جوں کی توں رہے گی۔