پاکستان کے قبائلی اضلاع میں موجود معدنی وسائل کو حکومتی عدم توجہی اور تنازعات کے باعث غیر قانونی کان کنی کے ذریعے دیگر مقامات پر منتقل کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔
خیبر پختونخوا کے وزیر معدنیات ڈاکٹر امجد علی خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حال ہی میں خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں معدنی وسائل کی اسمگلنگ جاری ہے، اس عمل میں سرکاری افسران اور عملہ بھی ملوث ہے۔
ڈاکٹر امجد علی خان نے دعوٰی کیا ہے کہ غیر قانونی طور پر معدنی وسائل نکالنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا ہے۔ ان کے بقول پچھلے آٹھ مہینوں کے دوران دو ہزار واقعات میں ملوث افراد کے خلاف مقدمات درج کر کے دو ارب جرمانہ بھی وصول کیا گیا ہے۔
قبائلی اضلاع میں کونسے معدنی وسائل ہیں؟
حکام کے مطابق مہمند، باجوڑ اور ضلع خیبر میں ماربل کے وسیع ذخائر موجود ہیں جبکہ ضلع مہمند میں موجود سفید ماربل کی نہ صرف اندرون بلکہ بیرون ملک بھی بہت مانگ ہے۔
تحصیل جمرود کے سرخ ماربل اور باجوڑ کے سفید ماربل کی بھی شہرت ہے۔ ضلع خیبر کی وادی تیرہ، کوہاٹ اور پشاور سے ملحقہ علاقوں میں کوئلے کے بھی وسیع ذخائر موجود ہیں تاہم ان علاقوں میں کوئلہ نکالنے کا عمل تاحال شروع نہیں ہو سکا ہے۔
اطلاعات کے مطابق بعض سرکاری اداروں کی کوشش ہے کہ یہاں سے کوئلہ نکالنے کے کام کی براہ راست نگرانی کی جائے تاہم درہ آدم خیل، اورکزئی اور ہنگو کے علاقوں میں کوئلہ نکالنے کا کام گزشتہ سالوں سے جاری ہے۔ جہاں نو ہزار مزدور کام کر رہے ہیں۔
'سرکاری ادارے غیر فعال ہو چکے ہیں'
ماضی میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں معدنی ذخائر کو بروئے کار لانے کے لیے پاکستان منرل ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے نام سے ادارہ قائم تھا۔ معدنی وسائل نکالنے کے لیے اس ادارے سے اجازت نامہ لینا ضروری ہوتا تھا۔
ماہرین کے مطابق اس ادارے کے پاس بھی محدود وسائل ہیں جبکہ علاقے میں امن وامان کی خراب صورت حال کے باعث سرمایہ کاروں نے بھی کبھی ان علاقوں میں سرمایہ کاری پر توجہ نہیں دی یہی وجہ ہے کہ غیر قانونی کام کرنے والے افراد کو اپنی من مانیاں کرنے کا موقع مل گیا۔
مقامی افراد کے مطابق ان قبائلی اضلاع میں اراضی کے تنازعات بھی ان معدنی وسائل کے استعمال کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
حکومت نے ان تنازعات کے حل کے لیے بھی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ان علاقوں میں کوئلے اور معدنیات کی دیگر کانوں سے سال 17-2018 میں رائلٹی کے مد میں سرکاری خزانے میں 125 ملین روپے جمع ہوئے ہیں۔
حکام کے مطابق شمالی اور جنوبی وزیرستان میں تانبے، کرومائٹ حتیٰ کے بعض علاقوں میں سونے کے بھی وسیع ذخائز موجود ہیں۔
شمالی وزیرستان کے بعض پہاڑی علاقوں میں فوج کے ذیلی ادارے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) نے مقامی قبائل کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت معدنی وسائل نکالنے کا کام شروع کیا ہے۔ تاہم دیگر علاقوں میں موجود معدنی وسائل کو ٖغیر قانونی طور پر نکالنے اور فروخت کرنے کا کام جاری ہے۔
کرم ایجنسی میں ایک کارخانے کے مالک گلاب جان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان علاقوں میں سوپ سٹون اور دیگر معدنیات کے وسیع ذخائر موجود ہیں لیکن حکومت کی عدم دلچسپی اور زمینوں کے تنازعات ان وسائل کو بروئے کار لانے کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
'مقامی افراد کو فائدہ پہنچنا چاہیئے'
مقامی افراد کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کے اعلانات کے باوجود ان معدنی وسائل سے مقامی لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا۔ عمران خان کے حالیہ دوروں کے باوجود علاقوں میں غیر قانونی کان کنی کا عمل جاری ہے۔
سینیئر صحافی صفدر داوڑ کا کہنا ہے کہ حکومتی ادارے مقامی افراد کو ترجیح دینے کی بجائے باہر سے آنے والوں کو نہایت کم فیس لے کر کان کنی کی اجازت دے رہے ہیں۔ جس سے مقامی لوگوں میں احساس محرومی بڑھ رہا ہے۔
معدنی وسائل سے متعلق قانون سازی
صوبائی وزیر معدنیات ڈاکٹر امجد علی خان کہتے ہیں کہ ان تمام مسائل کے حل کے لیے خیبر پختونخوا اسمبلی میں قانون سازی کے لیے ترمیمی بل لایا جائے گا۔
اس قانون سازی کے ذریعے نہ صرف ان معدنی وسائل کا تحفظ ہو گا بلکہ غیر قانونی کان کنی کرنے والے افراد کی حوصلہ شکنی ہو گی۔
انھوں نے کہا کہ معدنی وسائل پر پہلا حق مقامی افراد کا ہے اس قانون سازی کے ذریعے یہ یقینی بنایا جائے گا کہ کان کنی کے عمل میں مقامی افراد کو ترجیح دی جائے تاکہ کسی میں احساس محرومی پیدا نہ ہو۔