'ملی مسلم لیگ، جماعت الدعوة کا نیا چہرہ ہے'

  • قمر عباس جعفری

حافظ اپنی جماعت کے ارکان کے ہمراہ۔ فائل فوٹو

احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کسی بھی سیاسی پارٹی کو الیکشن کمیشن سے رجسٹر کرانے کی ضرورت اس لئے ہوتی ہے کہ اسے ایک انتخابی نشان مل جائے جس پر وہ پورے ملک میں انتخاب میں حصہ لے سکے۔

امریکہ نے حافظ سعید کی جماعت الدعوة کی دو ذیلی تنظیموں کو ، جن میں ملی مسلم لیگ بھی شامل ہے، دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر دیا ہے۔

اس اقدام کے پاکستان پر ممکنہ طور پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں، یہ جائزہ لیا وائس آف امریکہ کی اردو سروس نے اپنے پروگرام جہاں رنگ میں۔

دو ممتاز سیاسی تجزیہ کاروں پروفیسر حسن عسکری اور پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا کہ ملی مسلم لیگ کو امریکہ کی جانب دہشت گرد گروپوں کی فہرست میں شامل کئے جانے سے پاکستان میں اس کی پوزیشن پر اس وقت تک کوئی اثر نہیں پڑے گا جب تک کہ خود حکومت پاکستان عدالت عالیہ میں جا کر ریفرنس داخل نہ کرے۔

وائس آف امریکہ کے پروگرام جہاں رنگ میں میزبان قمر عباس جعفری سے بات کرتے ہوئے پروفیسر عسکری نے کہا کہ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ امریکہ سمجھتا ہے کہ ملی مسلم لیگ جماعت الدعوة کا نیا چہرہ ہے جس پر پہلے ہی پابندیاں عائد ہیں اور پاکستان محض امریکی اصرار کے سبب جماعت الدعوة کے خلاف کارروائی کررہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ گروپ ایک سیاسی چہرہ لگا کر الیکشن کے ذریعے اپنے وجود کو بڑھانا اور مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ اور پاکستان سے انہیں امید نہیں تھی کہ وہ اس سیاسی گروپ پر پابندی لگائے گا ہر چند کہ پاکستان الیکشن کمیشن نے اس کو رجسٹر نہیں کیا ہے اور شرط لگائی ہے کہ وہ وزارت داخلہ سے منظوری لے کر آئیں ۔ اس لئے امریکہ نے اس پر پابندی لگائی ۔

احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کسی بھی سیاسی پارٹی کو الیکشن کمیشن سے رجسٹر کرانے کی ضرورت اس لئے ہوتی ہے کہ اسے ایک انتخابی نشان مل جائے جس پر وہ پورے ملک میں انتخاب میں حصہ لے سکے۔ اب اگر وہ الیکشن کمیشن میں رجسٹر نہ ہو تب بھی وہ ملک بھر اپنے دفتر کھول سکتی ہے اور اس نے کھولے ہوئے ہیں۔ بس انتخاب میں ان کے انفرادی نشان ہوں گے۔

احمد بلال نے کہا کہ قانون کے تحت محکمہ داخلہ سے منظوری کسی سیاسی جماعت کے لئے ضروری نہیں ہے اور اگر الیکشن کمیشن محکمہ داخلہ کی منظوری چاہتا ہے تو پھر قانون میں تبدیلی کرنی ہوگی۔ جس سے بڑی مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔

ان کا مزید کہنا تھا اگر پاکستانی حکومت پابندی لگانا چاہتی تو اسے عدالت میں ریفرنس داخل کرنا پڑے گا اور وہاں سے پابندی لگوانی پڑے گی۔