امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور ایران کو اپنے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات کو کم کرنے کے لیے بالآخر خود ہی کم کرنے کے لیے کام کرنا ہو گا جب کہ مبصرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ اختلاف خطے سے باہر بھی سفارتی کوششوں کو متاثر کر سکتا ہے۔
محکمہ خارجہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ یہ معاملہ آگے چل کر امریکہ کے مفاد کے لیے پرامید نہیں ہو گا۔
سعودی عرب نے تہران میں اپنے سفارتخانے پر حملے کے بعد ایران سے اپنے سفارتی تعلقات ختم کر دیے تھے۔ بعد ازاں بحرین اور سوڈان نے بھی ایسا ہی اقدام کیا جب کہ متحدہ عرب امارات نے ایران سے اپنے سفارتی تعلقات محدود کر دیے۔
ایک معروف شیعہ عالم شیخ نمر النمر کو سعودی عرب میں موت کی سزا دیے جانے پر ایران سمیت مختلف ملکوں میں مظاہرے دیکھنے میں آئے جب کہ تہران میں مظاہرین نے سعودی سفارتخانے پر دھاوا بولتے ہوئے وہاں توڑ پھوڑ کی۔
محکمہ خارجہ کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ ایران اور سعودی عرب کو خود اس کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کام کرنا ہو گا۔ "اس کشیدگی کا حل دیرپا ہوگا اور انھیں اس پر توجہ دینی چاہیے جن پر ہم سب توجہ مرکوز کیے ہوئے جو کہ خطے کے دیگر بڑے مسائل ہیں۔"
ان معاملات میں اقوام متحدہ کی ثالثی میں شام کی حکومت اور اعتدال پسند حزب مخالف کے مابین مذاکرات بھی شامل ہیں۔ ایران، سعودی عرب اور امریکہ، شام سے متعلق 18 ملکی بین لاقوامی اسپورٹ گروپ میں شامل ہیں۔ اس گروپ نے جنگ بندی سمیت اس تنازع کے حل کے لیے تجاویز تیار کرنے میں معاونت فراہم کی ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی کہتے ہیں کہ امریکہ کو اب بھی امید اور توقع ہے کہ شام کی حکومت اور حزب مخالف کے درمیان مذاکرات رواں ماہ ہوسکتے ہیں۔
"لازمی بات ہے کہ [ایران اور سعودی عرب کے مابین] موجودہ صورتحال کے تناظر میں ہم اس کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔"
وائٹ ہاوس کے ترجمان جوش ارنسٹ نے کہا کہ شام کو مستحکم کرنے کے لیے کی جانے والی بات چیت میں پیش رفت کی امید کی وجوہات موجود ہیں۔
"وجہ یہ ہے کہ ایران اور سعودی عرب نے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی سربراہی میں ہونے والی بات چیت میں شرکت کسی عطیے کے طور پر نہیں ہے۔"
ان کے بقول شام کی بدامنی کے خاتمے میں سعودی عرب اور ایران کے اپنے مفادات بھی شامل ہیں۔