پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے آزادی مارچ کے باعث اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان چلنے والی میٹرو بس سروس بھی کئی روز سے معطل ہے۔ انتظامیہ کے مطابق اب تک پانچ کروڑ 40 لاکھ روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔
آزادی مارچ کے شرکا نے اسلام آباد میں میٹرو بس ڈپو سے ملحقہ ایچ نائن گراؤنڈ میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ سیکورٹی خدشات کے باعث انتظامیہ نے میٹرو بس سروس معطل کر دی تھی۔
میٹرو بس سروس معطل ہونے سے اس کے ذریعے سفر کرنے والے ہزاروں مسافر پریشان ہیں وہیں سروس بند ہونے سے میٹرو بس انتظامیہ کو بھی مالی نقصان ہو رہا ہے۔
انتظامیہ کے مطابق تاحال انہیں 5 کروڑ 40 لاکھ روپے کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ میٹرو بس اتھارٹی میں منیجر آپریشن شمائلہ محسن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس سروس کے ذریعے ہر روز ایک لاکھ 20 ہزار مسافر جڑواں شہروں کے درمیان سفر کرتے ہیں۔ مسافروں سے 30 روپے کرایہ وصول کیا جاتا ہے۔ لہذٰا روزانہ انہیں 36 لاکھ روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان کی سابق حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) نے 2013 میں میٹرو بس سروس کا آغاز لاہور سے کیا تھا۔ جس کے بعد جون 2015 میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان یہ سروس شروع کی گئی۔ پہلے ایک طرف کا کرایہ 20 روپے وصول کیا جاتا تھا لیکن پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اسے بڑھا کر 30 روپے کر دیا تھا۔
شمائلہ محسن کہتی ہیں کہ میٹرو بس کا سالانہ خسارہ ایک ارب 70 کروڑ تھا تاہم کرایے بڑھانے سے اس خسارے میں کمی کی توقع کی جا رہی تھی۔ ان کے بقول دھرنے کے باعث سروس بند ہونے سے مالی خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔
شمائلہ محسن کا کہنا ہے کہ میٹرو بس سروس بند ہونے سے شہری پریشان ہیں اور وزیر اعظم کے شکایات پورٹل پر بھی شہری شکایات درج کرا رہے ہیں۔ نقصانات سے بچنے کے لیے میٹرو بس انتظامیہ نے تمام بسیں ڈپو سے راولپنڈی منتقل کر دی تھیں۔
انتظامیہ کے مطابق دھرنے کے شرکا بسا اوقات میٹرو بس ڈپو کے قریب بھی آ جاتے ہیں لہذٰا حفاظتی اقدامات کے تحت ان بسوں کو راولپنڈی منتقل کر دیا گیا ہے۔
اسلام آباد اور راولپنڈی میں میٹرو بس بند ہونے سے ٹیکسی اور کیب والوں کی چاندی ہو گئی ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ میٹرو بس سستا اور آرام دہ سفر کا ذریعہ تھی۔ لیکن اب وہ ٹیکسی اور کیب سروسز کے ذریعے مہنگا سفر کرنے پر مجبور ہیں۔
راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی رضیہ جمال ملازمت کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میٹرو بس کے ذریعے اپنے آفس پہنچتی تھیں۔ لیکن اب انہیں مجبوراً ٹیکسی یا دیگر ٹرانسپورٹ کے ذریعے سفر کرنا پڑتا ہے جس سے ان کا بجٹ شدید متاثر ہو رہا ہے۔ رضیہ کہتی ہیں کہ میٹرو بسوں میں خواتین کے بیٹھنے کا الگ انتظام تھا جس سے خواتین اطمینان سے سفر کرتی تھیں۔
دسویں جماعت کے طالب علم عقیل بھی میٹرو بس کی بندش سے پریشان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ میٹرو بس سے بروقت اسکول پہنچ جاتے تھے۔ لیکن اب انہیں بسیں تبدیل کر کے اسکول پہنچنا پڑتا ہے جس میں تاخیر ہو جاتی ہے۔
اسلام آباد کے رہائشی امین قاسمی کے تین بیٹے اور ایک بیٹی بھی میٹرو بس کے ذریعے اپنے اسکول اور کالجز پہنچتے تھے۔ امین کہتے ہیں کہ انہیں اطمینان رہتا تھا کہ میٹرو بس ان کے بچوں کو بروقت منزل مقصود پر پہنچا دے گی لیکن اب وہ اس کرب میں مبتلا رہتے ہیں کہ ان کے بچے کب گھر پہنچیں گے۔
شمائلہ محسن کے بقول بندش کے باوجود پنجاب حکومت ملازمین کو تنخواہیں ادا کر رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میٹرو بس سے منسلک بعض ادارے حکومت نے آؤٹ سورس کیے ہیں۔ جہاں روزانہ کی بنیاد پر لوگ کام کرتے ہیں۔ لہذٰا انہیں یہ علم نہیں کہ یہ ادارے اپنے ملازمین کو معاوضہ دے رہے ہیں یا نہیں۔