بیس جنوری 2021 کی یہ ایک انتہائی خوش گوار روشن صبح تھی۔ موسم کافی سرد تھا لیکن سورج بھی پوری آب وتاب سے چمک رہا تھا اور دھوپ بہت بھلی لگ رہی تھی۔
امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں یہ ایک تاریخی دن تھا۔ آج 46 ویں صدر جو بائیڈن اور ان کی نائب صدر کاملا ہیرس کیپٹل بلڈنگ کے باہر مغربی بالکنی پر اپنے عہدوں کا حلف اٹھا رہے تھے۔ اس موقع پر خاص خاص لوگوں کو مدعو کیا گیا تھا جو سامنے لان میں دور دور لگائی گئی نشستوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ مگر حلف برداری اسٹیج پر امریکہ کے سابق صدور اپنی بیگمات کے ہمراہ موجود تھے۔ ان کے علاوہ کانگریس کی دونوں جماعتوں کے ارکان اور اعلیٰ عہدے دار بھی تشریف فرما تھے۔
عموماً اس حلف برداری کے موقع پر جو ہر چار سال بعد ہوتی ہے۔ کیپٹل بلڈنگ کے سامنے لان پر میلوں تک لوگوں کا ہجوم ہوتا تھا۔ لیکن اس بار کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے باعث زیادہ تر تقریب ورچوئل تھی۔ اور پھر تقریب سے چند روز پہلے چند سر پھرے کانگرس کی اس عمارت پر چڑھ دوڑے یہ سوچتے ہوئے کہ وہ نظام کو اپنے تابع کر لیں گے۔ سب کو اپنے زیرِ نگیں کر لیں گے اور ملک کو اپنی مرضی سے چلائیں گے۔ لیکن وہ یہ بھول گئے کہ جیت بالآخر جمہوریت، انصاف اور انسانیت کی ہوتی ہے۔
جس طرح ہر شر سے خیر نکلتی ہے تو ان شر پسندوں نے بھلائی یہ کی کہ حلف برداری سے ایک ہفتہ پہلے ہی کارروائی کر کے اپنے مذموم عزائم سے آگاہ کر دیا اور ان کی اس حرکت سے سب خبردار ہو گئے۔ سیکیورٹی چوکنا ہو گئی اور چوں کہ ایسا یہاں پہلی بار ہو ا تھا اور حلف برداری چند روز بعد ہونی تھی اس لیے تمام ادارے مستعد ہو گئے اور پھر پورے شہرکی ایسی ناکہ بندی کر دی کہ پرندہ پر نہیں مار سکتا تھا۔
صدر بائیڈن بائبل پر ہاتھ رکھ کر حلف اٹھا رہے تھے۔ ساتھ ان کی موجودہ بیوی ان کی ہر لمحے کی ساتھی، ایک پیشہ ور استاد ان کو بڑے فخریہ انداز میں دیکھ رہی تھیں۔
ان کے بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں سب وہاں موجود تھے اور ایک سینئر ترین امریکی سینیٹر اور سابق نائب صدر جو بائیڈن کے لیے کامیابی کا یہ نقطۂ عروج تھا کہ وہ دنیا کی ایک سپر طاقت کے سربراہ کا منصب سنبھال رہے تھے۔ مگر یہ ذمے داری خوشی کا مقام ضرور سہی لیکن یہ پھولوں کی سیج نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ ایک ایسے وقت میں یہ عہدہ سنبھال رہے تھے جب امریکہ اندرونی اور بیرونی گمبھیر مسائل میں گھرا ہوا ہے۔
کرونا وائرس سے روزانہ ہزاروں اموات ہو رہی ہیں، ملک تقسیم نظر آتا ہے۔ معیشت کمزور ہے اور بیرونی طور پر بھی اسے بےشمار آزمائشوں کا سامنا ہے۔
لیکن پیرانہ سالی کے باوجود، بائیڈن جوانوں کی طرح چاق و چوبند دکھائی دیتے ہیں اور تیز قدموں سے دوڑتے ہوئے وہ اس عزم کا مظاہرہ کر رہے ہیں کہ وہ ان تمام مسائل پر جلد از جلد قابو پالیں گے۔
ان کی سب سے پہلی ترجیح کرونا وائرس پر قابو پانا اور لاکھوں معصوم جانوں کو بچانا ہے۔ وہ غریبوں، طلبہ اور تارکینِ وطن سے پرخلوص ہمدردی رکھتے ہیں اور معیشت کو مضبوط کر کے عوام کو ریلیف دینا چاہتے ہیں۔
ان کے ابتدائی اقدامات بھی اس کے عکاس ہیں اور آنے والا وقت ہی ان کے عزائم کو ظاہر کرے گا۔
مگر جب ہم ان کی پوری زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ان پر یقین کرنے کو جی چاہتا ہے۔
جو بائیڈن ایک سادہ سے انسان ہیں جو ایک درد مند دل رکھتے ہیں جب وہ سینیٹر تھے تو جوان عمری ہی میں ان کی پہلی بیوی اور بیٹی ایک کار کے حادثے میں ہلاک ہو گئی تھیں اور بچے اکیلے تھے۔ تو ایک باپ اور ماں دونوں کی ذمہ داری ان پر آن پڑی اور وہ واشنگٹن سے روزانہ ٹرین پر ڈیلاویئر آتے جاتے تھے تاکہ ان کے بچے رات کو اکیلے نہ سوئیں۔
پھر جب ان کےجو ان سال بیٹے کینسر کے مرض کا شکار ہوئے تو وہ اُن کے علاج کے لیے بہت پریشان تھے اور بڑے بڑے عہدے رکھنے کے باوجود ان کے مالی حالات اچھے نہیں تھے۔
ہر طرح کی سہولت ان کو حاصل تھی، کوئی بھی بینک ان کو قرض دے سکتا تھا۔ لیکن بیٹے کے علاج کے لیے انہوں نے اپنا گھر بیچنے کا فیصلہ کیا مگر عین وقت پر اُس وقت کے صدر اوباما کو ان کی مشکل کا اندازہ ہوا۔ انہوں نے ان کی مددکی مگر افسوس کہ ان کا بیٹا جانبر نہ ہو سکا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اسی طرح جب ان کی نائب صدر کی حیثیت سے مدت ختم ہوئی تو انہوں نے بڑی سادگی سے اپنا بیگ اٹھایا اور قریبی اسٹیشن سے ٹرین پر سوار ہو کر معمول کی طرح ڈیلاویئر پہنچ گئے۔ کوئی طمطراق کوئی پروٹوکول نہیں، ایک عام شخص کی سی زندگی۔
غرض ان کے کردار کی یہی خوبیاں ہیں کہ آج 78 سال کی عمرمیں جب لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد زندگی کے آخری دن گزار رہے ہوتے ہیں ،وہ دنیا کی ایک سب سے بڑی طاقت کے سربراہ کی ذمے داریاں نبھانے کے لیے پوری طرح تیار ہیں اور کسی بھی طور کسی کمزوری اور بڑھاپے کا اظہار نہیں کرتے۔
صدر جو بائیڈن باوقار انداز میں اپنے عہدے کا حلف اٹھا رہے تھے اور ہم بڑے رشک سے اس لیڈر کو دیکھ رہے تھے جو اپنے ملک کو ایک بار پھر عظیم بنانے کا عہد کر رہا تھا۔
ہمارا ذہن اور دل جو ہمیشہ کی طرح اپنے پرانے دیس کی طرف لوٹ جاتا ہے ،ماضی کی وہ تصویریں دیکھ رہا تھا جب ہمارے ہاں نئے آنے والے حکمران حلف اٹھاتے وقت لوگوں کو نئی امیدیں دلا رہے ہیں اور کس طرح بار بار یہ امیدیں ٹوٹ رہی ہیں۔ مجھ سے زیادہ آپ جانتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو جو یاد آئے گا آپ کے ساتھ دکھ سکھ کریں گے مگر آئندہ اور آہستہ آہستہ۔۔۔خوش رہیے۔۔