یہ 22 مارچ کا دن تھا جب ہم انٹرویو کے لیےمیٹھا در کے ایدھی سینٹر پہنچے تو وہ پہلے ہی مسکراتے چہرے اور مسکراتی آنکھوں کے ساتھ ہماری منتظر تھیں۔ ہم رمضان اور عید کے بارے میں ان کی یادیں محفوظ کرنے کے لیے ان کے پاس گئے تھے لیکن ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ ان سے یہ ملاقات خود ایک یاد بن جائے گی۔ یہ شاید ان کی زندگی کا آخری انٹرویو تھا۔
بلقیس ایدھی سےملنے والوں کو کبھی اجنبیت کا احساس نہیں ہوسکتا تھا۔ ریکارڈنگ سے پہلے اور بعد میں غیر رسمی گفتگو ہوئی تو ایسا محسوس ہوا کہ ہم بہت مدت سے وہاں آتے جاتے رہے ہیں۔ دراصل میٹھا در کی جس عمارت میں ہم بیٹھے ان سے یہ گفتگو کررہے تھے وہیں سے ایدھی صاحب نے پاکستان میں اپنے پرائے کی تمیز کے بغیر خدمت کا وہ مشن شروع کیا تھا جو آج دنیا کے سامنے ایک مثال ہے۔
بلقیس ایدھی سے گفتگو کے دوران وہ بہت عجیب لمحہ تھا جب ان سے پوچھا کہ ایدھی صاحب کب کب یاد آتے ہیں جس پر انہوں نے اپنی اسی معصومانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا "وہ گئے ہی کہاں ہیں۔ وہ تو ہر وقت میرے ساتھ ہوتے ہیں۔"
یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنے ساتھ رکھے ایدھی صاحب کے ایک بڑے پورٹریٹ کی جانب اشارہ کیا جو انٹرویو سے کچھ دیر پہلے ہی انہوں نے خاص طور پر اس طرح منگوا کے اپنے پاس رکھوایا تھا جیسے ایدھی صاحب کو پاس بٹھا لیا ہو۔ جب تصویر لا کر رکھی گئی تو بہت خوشی سے بتانے لگیں کہ یہ کالج کی لڑکیوں نے بنائی ہے۔
پھر اسی مصومیت سے تصویر کی طرف اشارہ کرکے یہ نہیں پوچھا کہ تصویر کیسی ہے؟ بلکہ ان کا سوال تھا ’کیسے لگ رہے ہیں؟‘ ہم نے پھر تصویر کی طرف دیکھا۔ واقعی محبت اور خلوص سے بنائی گئی اس تصویر میں ایدھی صاحب کی آنکھوں میں زندگی جگمگا رہی تھیں۔
اب ہم سوال کرتے رہے اور وہ بچپن کی یادوں کے ورق پلٹتی رہیں۔ انہوں ںے بتایا کہ ان کی والدہ نے کس خودداری اور محنت سے ان کی پرورش کی۔ اسکول میں پڑھایا، سلائی کڑھائی کرکے محنت سے اپنے خاندان کا سائبان بنیں۔ صرف ضرورتیں ہی پوری نہیں کی بلکہ محبت اور اس کے تقاضے بھی نبھائے۔
وہ اس طرح کہ جب بلقیس بانو نے اپنا پہلا روز رکھا تو ان کی والدہ نے انہیں باداموں میں تولا۔ یہ منت تو ان کے والد نے مانی تھی لیکن اسے پورا کرنے سے قبل ہی وہ دنیا سے چلے گئے تھے اور ان کی والدہ نے اپنے شوہر کی یہ آرزو بھی پوری کی۔
بلقیس ایدھی کی وفات کے بعد ان کی گفتگو کو یاد کیا تو تہمینہ درانی کی مرتب کردہ ایدھی صاحب کے سوانح 'عبدالستار ایدھی ، این آٹو بائیوگرافی : اے مرر ٹو دی بلائنڈ' کی طرف دھیان چلا گیا جس میں انہوں نے بلقیس ایدھی کی والدہ اور ان کے خاندان کا تذکرہ بھی کیا ہے۔
بلقیس ایدھی کی والدہ 19 برس کی عمر میں بیوہ ہوگئی تھیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ اپنے تین بچوں کے ساتھ کراچی آئی تھیں۔ خاندن والوں کا اصرار تھا کہ بچے چھوٹے ہیں اور انہیں پالنے کے لیے کوئی سہارا ہونا چاہیے۔ لیکن انہوں نے دوسری شادی سے صاف انکار کردیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
بلقیس ایدھی کی والدہ نے اپنی بیٹی اور دو بیٹوں کی کفالت کے لیے 20 روپے یومیہ اجرت پر پڑھانا شروع کردیا۔ اس باہمت لڑکی کو اب لوگ مریم استانی کہنے لگے تھے۔ وہ اسکول میں پڑھانے جاتیں تو ان کی والدہ اور بہن ان کے تینوں بچوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔
ایدھی صاحب نے اپنی یادداشتوں میں بیان کیا ہے کہ مریم استانی اور ان کے بچے کبھی اپنی پریشانیوں اور مسائل میں گھبرائے نہیں تھے بلکہ وہ آمدن کے لیے گھر میں کوئی چھوٹا موٹا کام کرتے ہوئے بھی کبھی گیت گنگاتے تو کبھی ان کا گھر قلقاریوں اور قہقہوں سے گونجتا تھا۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بلقیس بانو کے چہرے پر بکھری مسکراہٹ دراصل ان کی والدہ کی اس تربیت کی دین تھی جس میں انہوں نے اپنی اولاد کو زندگی کے ہر مرحلے میں خندہ پیشانی سے دشوار ترین ادوار کا سامنا کرنا سکھایا تھا۔
مسکراتے چہرے اور چمکتی آنکھوں والی لڑکی
ایدھی صاحب نے بلقیس بانو کے اپنی ڈسپنسری میں تربیت کے لیے آںے کا واقعہ بڑے دل چسپ انداز میں بیان کیا ہے۔
یہ 1965 میں پاکستان اور بھارت کی جنگ کا دور تھا۔ ایدھی صاحب کو سماجی خدمت کرتے 14 برس ہوچکے تھے اور جنگ کے دنوں میں وہ امدادی سامان کی فراہمی میں دن رات مصروف تھے کہ انہی دنوں میٹھا در کے سینٹر میں ایک خاتون اپنی بھانجی کو نرس کی تربیت دلانے ان کے پاس لائیں۔ مسکراتے چہرے اور چمکتی آنکھوں والی اس لڑکی کا نام بلقیس تھا۔
ایدھی صاحب نے بلقیس کی خالہ سے پوچھا کہ ان کی بھانجی کی پڑھنے کی عمر ہے، کیا یہ اسکول نہیں جاتی؟ جس پر خالہ نے جواب دیا کہ اب یہ بڑی ہوگئی ہے لیکن اسے پڑھنے سے چڑ اور کام کرنے کا شوق ہے۔
ایدھی صاحب نے بیان کیا ہے کہ "خالہ سے گفتگو کے دوران جب انہوں نے بلقیس کی جانب دیکھا تو اس لڑکی کی معصومیت پر وہ دل ہی دل میں ہنس رہے تھے۔ شرارت بھرے انداز میں وہ اس وقت مسکرا رہی تھیں اور ان کی آنکھوں میں بچوں جیسی التجا تھی کہ میری یہاں کام کرنے کی خواہش کو رد نہ کیا جائے۔"
ایدھی ہنستا بھی ہے!
ڈسپنسری میں ڈسپلن قائم رکھنے کے لیے ایدھی صاحب نے خود پر سخت مزاجی طاری کررکھی تھی۔ ان کی موجودگی میں کسی کی ہنسنے مسکرانے کی مجال نہیں ہوتی تھی۔ لیکن واحد بلقیس تھیں جو پوری محنت اور لگن سے کام کرنے کے ساتھ ہنستی مسکراتی رہتی تھیں۔ اس لیے ایدھی صاحب نے انہیں کبھی نہیں ٹوکا۔
ایدھی صاحب اب خلافِ عادت مسکرانے لگے تھے۔ جس پر ان کے ساتھیوں نے کہنا شروع کردیا تھا کہ انہیں تو اب معلوم ہوا کہ ایدھی ہنستا بھی ہے اور بات بھی کرتا ہے۔ اس پر بلقیس تبصرہ کیا کرتیں کہ 'اور وہ زندہ بھی ہے۔'
اپنی سوانح حیات میں ایدھی صاحب کہتے ہیں کہ بلقیس کا خیال تھا کہ میں مرچکا ہوں؟ اور پھر آگے چل کر خود ہی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ان کا کوئی دن لاوارث میتوں کی تدفین کے بغیر نہیں گزرتا تھا جس نے ان کی ذات میں سے زندگی کی رمق ہی ختم کر دی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
لیکن اب نرس کے سفید یونیفارم میں ہنستی مسکراتی اور پُھرتی سے اپنے کام نمٹاتی بلقیس کے آنے سے جس طرح ڈسپنسری کے ماحول میں زندگی دوڑ گئی تھی، ایدھی صاحب بھی اب مسکرانے لگے تھے اور اسی دور میں اپنے کام سے لگن اور خاندان کی خودداری کودیکھتے ہی ایدھی صاحب نے بلقیس بانو کو اپنا شریکِ سفر بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔
ایدھی صاحب نے پہلی مرتبہ بلقیس بانو کو ان الفاظ میں شادی کا پیغام دیا "کیا تم ہمیشہ میرے ساتھ کام کرسکتی ہو؟" بلقیس بانو یہ پیغام نہ سمجھ سکیں اور فوراً ہامی بھرلی ۔ لیکن جب ایدھی صاحب نے صاف صاف بلقیس سے شادی کی خواہش ظاہر کی تو ان کا جواب تھا کہ آپ خالہ سے بات کریں۔
اب ایدھی بدل جائے گا
یہ 19 اپریل 1966 کا دن تھا جب بلقیس بانو اور عبدالستار ایدھی کی شادی ہوئی لیکن روایتی شادیوں کی طرح اس میں کوئی دھوم دھام نہیں تھی۔ رخصتی کے دن بھی ایدھی صاحب ڈسپنسری کے کاموں میں مصروف تھے اور ان کے اہلِ خانہ دلہن کو گھر لے آئے تھے۔
ایدھی صاحب نے اپنی سواںح میں بیان کیا ہے کہ "شادی کے بعد میری زندگی میں بظاہر کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی لیکن لوگ یہ کہنے لگے تھے کہ عبدالستار کا مشن اسی دن ختم ہوگیا جس دن اس نے شادی کی۔لوگوں کا خیال تھا کی نک سک سے رہنے والی بلقیس بانوکےایدھی کی زندگی میں آںے کے بعد ان کے طور طریقے بدل جائیں گے، لباس اور کھانے پینے میں ان کی سادگی ہوا ہوجائے گی اور بقول ایدھی صاحب لوگ کہنے لگے تھے کہ ’’ اب ایدھی سوٹ پہن کر گھومے گا۔"
ایدھی صاحب تو نہیں بدلے لیکن بلقیس ایدھی نے خود کو ان کے رنگ میں ڈھال لیا۔ شادی کے بعد ایدھی کا مشن ختم نہیں ہوا بلکہ اب انہیں بلقیس ایدھی کی صورت میں اپنے مشن کی سب سے پُر خلوص ساتھی مل گئی تھیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ہم نے بھی ان سے سوال کیا تھا کہ کبھی انہوں نے ایدھی صاحب سے عید تہوار پر نیا جوڑا پہننے کی فرمائش نہیں کی؟ اس میں دراصل یہی سوال پوشیدہ تھا کہ کبھی ان کا رہن سہن بدلنے کی کوشش کی۔ اس پر وہ کہنے لگیں کہ میں بہت پہلے ہی سمجھ گئی تھی کہ ایدھی صاحب کو کچھ باتیں سمجھائی نہیں جاسکتیں۔
پھر مسکرا کر کہا کہ جب میری شادی ہوئی تو خود مجھ میں ہی اتنی سمجھ کہاں تھی کہ ان کو کسی بات پر قائل کرتی۔ وہ جیسے تھے ویسے رہے۔ ان کے مزاج میں کبھی کسی کو دیکھ کر تبدیلی نہیں آئی۔ انہوں ںے کبھی کسی کے لیے خود کو نہیں بدلا۔ اس پر انہیں ایک پرانا قصہ بھی یاد آگیا۔
بتانے لگیں "جب بھٹو صاحب وزیر اعظم بن گئے تو ایک بار گورنر ہاؤس میں ایک تقریب میں ایدھی صاحب کو بھی بلایا گیا جس میں وہ بھی ان کے ساتھ شریک ہوئیں۔ اس تقریب کے لیے بڑا اہتمام کیا گیا تھا۔ کھانے کا بھی خوب انتظام تھا۔اسی تقریب میں سماجی بہبود اور غریبوں کی بھلائی کے لیے تقریریں بھی ہوئیں اور جن لوگوں کو بلایا گیا تھا ان سے بھی تجاویز پوچھی گئیں۔اس دوران جب ایدھی صاحب کی باری آئی تو بھٹو صاحب اور سرکاری عہدے داروں کی موجودگی میں عبدالستار ایدھی نے کہا کہ آپ لوگوں کو غریبوں کی بڑی فکر ہوگی۔ لیکن اس تقریب میں جس طرح کھانے کا اہتمام کیا گیا ہے اگر یہی پیسہ غریبوں کی فلاح پر خرچ کردیا جاتا تو زیادہ بہتر تھا۔"
بلقیس ایدھی بتاتی ہیں یہ سن کر تقریب پر ایک لمحے کو سکتہ طاری ہوگیا۔ ایدھی صاحب نے اپنی بات پوری کی اور مجھے ساتھ لے کر گورنر ہاؤس سے نکل آئے۔ پھر ہنس کر کہنے لگیں" نہ خود کھایا اور نہ مجھے کھانا کھانے دیا۔"
انہوں نے پھر ہم سے یہ پوچھا کہ تمہی بتاؤ کہ ایسے آدمی کو کون بدل سکتا تھا۔
بس ایک خواہش تھی۔۔۔
بلقیس ایدھی نے بتایا کہ انہوں نے شادی کے بعد کبھی ایدھی صاحب سے کوئی فرمائش نہیں کی۔ عید پر وہ مریضوں اور سینٹر میں رہنے والے یتیم بچوں میں عیدی تقسیم کرنے کے لیے پیسے دیا کرتے تھے۔
شادی ہوئی تو ایدھی صاحب کا کوئی گھر نہیں تھا۔ میٹھا در کے جس ایک سینٹر کی عمارت کے ایک کمرے میں وہ بیاہ کر آئیں عمر بھر وہیں رہیں۔ بلقیس ایدھی نے اتنا ضرور کہا تھا کہ انہیں اپنے علیحدہ گھر کی خواہش تھی، لیکن وہ پوری نہیں ہوسکی اور اس پر انہیں کوئی افسوس بھی نہیں تھا۔
وہ گئے ہی کہاں تھے!
ایدھی صاحب کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بلقیس ایدھی نے ان کا مشن جاری رکھا۔البتہ اپنی بیماری کی وجہ سے وہ فعال نہیں رہی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ اب ان کے بیٹے فیصل ایدھی ان کی بہو اور بیٹی ادارے کے کام دیکھ رہے ہیں۔
انہیں یہ احساس ضرور تھا کہ ایدھی صاحب کے بعد ادارے کے کاموں میں اب کچھ کچھ مشکل پیش آنے لگی ہے۔جب پوچھا کہ اب کتنا فرق پڑا ہے؟ تو انہوں ںے کہا کہ ایدھی صاحب کے جانے کے بعد حالات بدلے ضرور ہیں لیکن پھر خود ہی کہا کہ "میرا عبدالستار کہتا تھا کہ یہ مت سمجھنا کہ ادارہ ہے یا بڑا ادارہ ہے تو تبھی کام ہوگا۔ کچھ بھی ہو اپنا کام جاری رکھنا بھلے تمہیں سب کچھ دوبارہ کیوں نہ شروع کرنا پڑے۔"
وہ گفتگو میں جب جب ’میرا عبدالستار‘ کہہ کر ایدھی صاحب کو یاد کرتی تھیں تو ان کا چہرہ دمک اٹھتا تھا۔ جب ہم نے سوال کیا کہ آپ اپنی اور ایدھی صاحب کی طرف سے ہمارے دیکھنے سننے والوں کو کچھ کہنا چاہیں گی تو انہوں ںے بڑی رسان سے کہا "میرا عبدالستار تو بس یہی کہتا تھا کہ سب کو کھلا کر کھاؤ۔ آپ سب بھی جب خوش ہوتے ہو تو اپنے آس پڑوس کا خیال کرو۔ ہم نے بھی عمر بھر یہی کیاہے۔"
ریکارڈنگ کے بعد ہم نے اجازت چاہی۔ سلام کرکے سر جھکایا تو انہوں نے سر پر دست شفقت رکھا اور خوب دعائیں دیں۔ نکلتے نکلتے ایدھی صاحب کی پورٹریٹ کے ساتھ انہیں بیٹھے ہوئے ایک بار پھر دیکھا تو واقعی یہ احساس ہوا کہ ایدھی صاحب وہیں ہیں۔
بلقیس ایدھی کے انتقال کے بعد کچھ دوستوں کو کہتے سنا کہ وہ ایدھی صاحب کے پاس چلی گئیں۔ لیکن شاید ایسا نہیں ہے، وہ دونوں جدا ہی کب ہوئے تھے۔