یکم مئی کو ہر سال مزدوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے، جب محنت کشوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کے حقوق کے لئے آواز بلند کی جاتی ہے۔ اس موقع پر بڑی بڑی ریلیاں عام روایت رہی ہیں، لیکن اس سال کرونا وائرس کی وجہ سے صورتحال مختلف ہے۔
اس عالمگیر وبا نے دنیا بھر میں معیشت کو جس طرح تاراج کیا ہے اس کی وجہ سے یوم مئی کی تقریبات اور احتجاجی جلوس اس کی نذر ہوگئے ہیں۔ ایک ایسے ماحول میں جب کرونا کی وبا نے دنیا کے تقریباً تمام ملکوں میں تباہی مچا رکھی ہے اور انسانی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔ اقتصادی ڈھانچے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور بڑی تعداد میں کارکن بیروزگار ہو رہے ہیں۔ محنت کی بین الاقوامی تنظیم (آئی ایل او) نے انتباہ کیا ہے کہ دنیا بھر میں ڈیڑھ ارب لوگ اپنی روزی روٹی سے محروم ہو سکتے ہیں۔
وائس آف امریکہ کے نامہ نگار ہیری ریج ویل اپنی رپورٹ میں اس جانب توجہ دلاتے ہیں کہ یکم مئی کو ہونے والے روایتی مظاہرے اس سال لاک ڈاون کی وجہ سے نہیں ہوپائیں گے، جبکہ ساتھ ہی کرونا کی عالمگیر وبا معیشت کو مستقل روندتی چلی جا رہی ہے۔
انھوں نے اپنی رپورٹ میں برازیل کے شہر ریو ڈی جینرو کا ایک علامتی نقشہ بھی پیش کیا ہے جہاں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ ہنگامی سرکاری امداد کے لئے قطاروں میں کھڑے ہیں۔ وہ بیروزگار ہوچکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ہمیں اب کرونا وائرس کا اتنا خوف نہیں رہا۔ لیکن، حقیقت یہ ہے کہ بھوک بہت ظالم چیز ہے آپ اپنے بچوں کو اور اہل خاندان کو فاقہ کرتے کیسے دیکھ سکتے ہیں۔
یوم مئی کے موقع پر محنت کی بین الاقوامی تنظیم (آئی ایل او) نے خبردار کیا ہے کہ دنیا بھر میں کارکنوں کی مجموعی تعداد کے نصف کو اس بات کا خطرہ ہے کہ کرونا کی عالمگیر وبا کے نتیجے میں ان کا روزگار بالکل ہی برباد ہوجائے گا۔
بین الاقوامی ٹریڈ یونین کنفیڈریشن کی جنرل سیکریٹری شیرون برو کا کہنا ہے کہ اس سال یوم مئی کے موقع پر ہمیں ان کارکنوں کا شکر گزار ہونا چاہئے جو اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
انھوں نے صحت کے شعبے میں کام کرنے والوں کی خاص طور پر مثال دی جو جرآت مندی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر روز اپنے کام پر حاضر ہوتے ہیں۔ ان میں نرسوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ اسی طرح ٹرانسپورٹ، ڈاک کے شعبے، سپر مارکیٹوں اور صفائی ستھرائی سمیت خدمات کے دوسرے شعبوں کے کارکنان بھی تعریف کے مستحق ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس نے یہ عیاں کر دیا ہے کہ دنیا کتنی کمزور شے ہے۔ عالمی سطح پر محنت کشوں کے تقریباً ساٹھ فیصد کو کوئی حقوق حاصل نہیں، ان کی کم سے کم اجرت مقرر نہیں، انھیں سماجی تحفظ نہیں، اور انھیں اپنی شکایتوں کے مداوے کے لئے قوانین کا تحفظ بھی حاصل نہیں، وہ توجہ دلاتی ہیں کہ اس سماجی نا انصافی کا تدارک ضروری ہے۔
جیسا کہ عموما ًدیکھنے میں آتا رہا ہے یوم مئی سرمایہ داری کے خلاف مظاہروں سے عبارت ہے لیکن اس بار سینکڑوں شہروں میں شاہراہیں، لاک ڈاون کی وجہ سے جلسے جلوسوں سے زیادہ تر خالی نظر آئیں گی۔
مزدوروں کے حقوق کے علمبرداروں کے مطابق، کارکنوں کے حقوق کی ضمانت تو ابھی بعد کی بات ہے فی الوقت سینکڑوں لوگوں کو یہ جدوجہد درپیش ہے کہ کرونا کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اقتصادی بحران سے کس طرح نمٹا جاسکے گا۔ اس اعتبار سے اس برس یوم مئی کی نوعیت یقیناً منفرد دیکھائی دیتی ہے۔