متحدہ عرب امارات سمیت دیگر خلیجی ریاستوں میں کام کرنے والے تارکین وطن کرونا وائرس کا شکار ہونے کے بعد تنہائی میں فوت ہورہے ہیں۔ ان کے آخری وقت میں نہ تو ان کے اپنے قریب ہوتے ہیں، نا ہی موت کے بعد ان کے لواحقین آخری دیدار کر پاتے ہیں۔
خلیجی ممالک میں روزگار کی غرض سے پاکستان اور بھارت سمیت متعدد ملکوں کے لاکھوں افراد مقیم ہیں۔ یہ لوگ کئی برسوں تک اپنے گھروں سے دور رہتے ہوئے اس امید پر کام کرتے ہیں کہ کچھ سرمایہ جمع کر کے وہ دوبارہ وطن لوٹ جائیں گے۔
یہ تارکین وطن خلیجی ملکوں کے اسپتالوں، بینکوں، تعمیراتی شعبوں اور فیکٹریوں میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ ورکرز محض ہم زبان، ہم خیال یا ہم وطن ہونے کے سبب ایک دوسرے کے گہرے دوست بن جاتے ہیں اور پھر یہ دوستیاں برسوں چلتی ہیں۔
لیکن کرونا وائرس کی وبا نے یہ سارا منظر ہی تبدیل کر دیا ہے۔ اگر خلیجی ممالک میں مقیم کوئی شخص کرونا وائرس کے باعث انتقال کر جائے تو اس کی میت اس کے گھر والوں تک نہیں پہنچائی جا سکتی۔ سرحدوں کی بندش و فلائٹ آپریشن کی معطلی کے سبب اس کے لواحقین بھی آخری دیدار کے لیے نہیں آ سکتے۔ لہٰذا عملے کے چند ارکان ہی ان کی آخری رسومات ادا کرتے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق کچھ دن قبل متحدہ عرب امارات میں مقیم ایک بھارتی شہری کرونا وائرس سے ہلاک ہو گیا تھا۔ انتظامیہ نے اس کی میت کو دوستوں یا رشتے داروں کے انتظار میں رکھا کہ شاید آخری دیدار کے لیے اس کا کوئی عزیز آ جائے۔
لیکن کئی گھنٹے انتظار کے باوجود بھی کوئی اسے دیکھنے نہیں آیا تو بلآخر حفاظتی سوٹ میں ملبوس عملے نے ہی آخری رسومات ادا کیں۔ عملے نے میت کو سفید رنگ کے پلاسٹک بیگ میں لپیٹ کر ایک برقی بھٹی کے حوالے کر دیا تھا جس نے اسے لمحوں میں ہی راکھ میں بدل دیا۔
خیال رہے کہ کرونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی میتوں کو ان کے گھر نہیں بھیجا جاتا اور آخری رسومات بھی اسی ملک یا شہر میں ادا کی جاتی ہیں جہاں اس کی موت ہوئی ہو۔
دبئی میں ہندو مت کے پیروکار بھارتی شہریوں کی آخری رسومات صحرائی علاقے میں واقع ایک شمشان گھاٹ میں ادا کی جا رہی ہیں۔ وہاں کے مینیجر ایشور کمار کہتے ہیں کہ کرونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا بدل رہی ہے۔ اب مرنے والوں کو دیکھنے کوئی نہیں آتا نہ ہی کوئی انہیں ہاتھ لگاتا ہے۔ انہیں کوئی الوداع بھی نہیں کہتا۔
انہوں نے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ کرونا وائرس سے پہلے لوگ اپنے پیاروں کی میتوں کے ساتھ یہاں آتے تھے۔ مگر اب لوگ تنہائی میں لاوارث مر جاتے ہیں۔
خلیجی ممالک میں اب تک کرونا وائرس کے 26 ہزار 600 سے زائد مریض سامنے آ چکے ہیں اور اس وبا سے 166 اموات ہوئی ہیں۔ ان میں سے بیشتر لوگ غیر ملکی ہیں اور بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال اور فلپائن سمیت مختلف ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔
دبئی کی ایک مارکیٹ کے مینیجر سریش گیلانی کہتے ہیں کہ بیرون ملک سے روزگار کی تلاش میں آنے والے زیادہ تر لوگ یہاں مزدور کے طور کام کرتے ہیں۔ وہ اپنے اہل خانہ سے دور ہوتے ہیں۔ اس لیے زیادہ تر لوگ تنہائی کی زندگی گزارتے ہیں۔
کرونا وائرس کے باعث متعدد لوگ بے روزگار بھی ہو رہے ہیں۔ خلیجی ممالک کی حکومتیں غیر ملکیوں کو ان کے وطن واپس بھیجنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ لیکن پروازوں کی بندش کے سبب انہیں کافی مشکلات درپیش ہیں۔
ادھر سعودی عرب میں بھی صورتِ حال اس سے مختلف نہیں۔ سعودی عرب کی وزارت صحت کے ذرائع نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر 'اے ایف پی' کو بتایا ہے کہ مسلمانوں کے بیشتر خاندان اپنے مرحومین کو سعودی عرب میں ہی دفن کرنے کے خواہش مند ہیں۔
سعودی عرب میں گزشتہ دنوں ایک 57 سالہ شخص وزیر موحد صالح کی کرونا وائرس سے موت ہو گئی تھی۔ وزیر صالح 1980 کی دہائی سے مدینہ میں مقیم تھے اور ایک اسٹیشنری کی دکان کے مالک تھے۔
صالح کے اہل خانہ اور کئی رشتہ دار بھی ان کے ساتھ ہی مدینہ میں رہتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ ان کی تدفین کے عمل میں شرکت نہ کر سکے۔ انہیں صرف چار افراد نے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے دفن کر دیا۔
صالح کے ایک بھتیجے امداد خان کے بقول ان کے چچا مدینہ میں ہی دفن ہونے کے آرزو مند تھے اور ان کی خواہش پوری ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی مسلمان ایسا نہیں ہے جو مدینہ میں فوت ہو اور کہیں اور دفن ہونا چاہے۔ یہ زمین جنت کا حصہ ہے۔