جنوبی امریکہ کے ملک پیرو سے تعلق رکھنے والے ادیب ماریو ورگاس لوسا کو ادب کے نوبیل انعام برائے 2010 کا حقدار قرار دیا گیا ہے۔
ایک جرات مند اور سخت گو سیاسی مصنف اور مضمو ن نگار کے طور پر پہچانے جانے والے لوسا کا شمار براعظم جنوبی امریکہ اور ہسپانوی زبان کے چوٹی کے ادیبوں میں کیا جاتا ہے۔ انہیں 1985میں ہسپانوی ادب کے سب سے بڑے انعام کاروانٹس پرائز سے بھی نوازا گیا تھا۔
ورگاس لوسا کے نام کا فیصلہ جمعرات کے روز نوبیل پرائز عطا کرنے والی سوئڈش اکیڈمی کے 16 رکنی بورڈ نے کیا۔ اکیڈمی کا 2010 میں ادب کے شعبے میں نوبیل انعام کا اعلان کرتے ہوئے کہنا تھا کہ لوسا کو یہ اعزاز "جبر کی ساخت اور افراد کی جانب سے اسکی مزاحمت اور اس کے خلاف ان کی برپا کردہ بغاوت کی پراثر اور جاندار تصویر کشی " کے اعتراف میں دیا جارہا ہے۔
ورگاس لوسا کا نام گزشتہ کئی برسوں سے ادب کے نوبیل انعام کے ممکنہ حقدار کے طور پر لیا جارہا تھا۔ سیاست، کرپشن، آمریت اور ان کے خلاف جدوجہد جیسے موضوعات پر ان کی تحریروں کو نہ صرف جنوبی امریکہ میں بھرپور پذیرائی ملی بلکہ اب تک ان کا 31 زبانوں بشمول چینی، عبرانی اور عربی میں ترجمہ بھی کیا جاچکا ہے۔
74 سالہ ورگاس لوسا نے 30 سے زائد ناول، ڈارامے اور مضامین تحریر کیے ہیں جبکہ ان کے ناولز "کنورسیشن ان دی کیتھڈرل" اور "دی گرین ہائوس" کو عالمی شہرت ملی۔ پیرو کی ملٹری اکیڈمی میں خود پہ گزرنے والے تجربا ت کو انہوں نے اپنے پہلے ناول "دی ٹائم آف دی ہیرو" میں قلم بند کیا۔ عالمی شہرتِ یافتہ یہ ناول 1963 میں منظرِ عام پر آیا تھا جس نے انہیں جنوبی امریکہ کے چوٹی کے مصنفین کے برابر لاکھڑا کیا۔
صحافت سے اپنے تصنیفی سفر کا آغاز کرنے والے ورگس لوسا کی زندگی کا بیشتر حصہ اشتراکی نظریات کے زیرِ سایہ گزرا۔ تاہم 1970 کی دہائی میں انہوں نے فیڈل کاسترو کی زیرِ قیادت کمیونسٹ کیوبا کے انتظام پر سخت تنقید کی اور "فری مارکیٹ" جیسے بنیادی کیپٹل نظریات کی حمایت کی۔ حالیہ دنوں میں وہ وینزویلا کے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے صدر ہیوگو شاویز کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔
ورگس لوسا نے 1990 میں پیرو کا صدارتی انتخاب بھی لڑا تاہم اپنے حریف البرٹو فیوجی موری سے شکست کھانے کے بعد انہوں نے خودساختہ جلاوطنی اختیار کرتے ہوئے اسپین کی شہریت اختیار کرلی۔
لوسا گزشتہ 28 سالوں میں جنوبی امریکہ سے تعلق رکھنے والے پہلے ادیب ہیں جنہیں ادب کا نوبیل انعام دیا جائے گا۔ ان سے پہلے یہ اعزاز 1982 میں معروف کولمبین مصنف اور ان کے سابق دوست گیبریل گارشیا مارکیز کو دیا گیا تھا۔
نوبیل انعام کا حقدار ٹہرائے جانے کے بعد اپنے ردِعمل میں پیروین مصنف کا کہنا ہے کہ انہیں اس اعلان سے خوشگوار حیرت ہوئی ہے کیونکہ انہیں اسکی امید نہیں تھی۔
ورگاس لوسا گزشتہ برسوں میں کئی امریکی، جنوبی امریکی اور یورپی جامعات میں لیکچر دیتے رہے ہیں جبکہ آج کل بھی وہ امریکی ریاست نیو جرسی میں واقع پرنسٹن یونیورسٹی میں رواں سمسٹر کیلیے مہمان مدرس کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔