|
امریکہ کی نائب صدر کاملا ہیرس کی نقل کردہ آواز میں ان سے غلط طور پر منسوب کی گئی ویڈیو کے انٹرنیٹ پر آنے کے بعد ان خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے کہ مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جینس) نومبر میں امریکہ میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں لوگوں کو کیسے گمراہ کر سکتی ہے۔
مذکورہ ویڈیو پر اس وقت توجہ مرکوز ہوئی جب ارب پتی بزنس مین ایلون مسک نے اسے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر شیئر کیا جب کہ انہوں نے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ اسے ابتدائی طور پر ایک پیروڈی کے طور پر جاری کیا گیا تھا۔
ویڈیو میں بہت سے ایسے مناظر شامل ہیں جنہیں ڈیمو کریٹک پارٹی کی متوقع صدارتی امیدوار کاملا ہیرس نے انتخابی مہم کا گزشتہ ہفتے آغاز کرتے ہوئے اپنے حقیقی اشتہار میں استعمال کیا تھا۔
لیکن اس ویڈیو میں وائس اوور آڈیو کسی اور آواز میں ہے جو کاملا ہیرس کی آواز سے مشابہت رکھتی ہے۔
ویڈیو میں کہا جا رہا ہے کہ "میں کاملا ہیرس صدارت کے لیے آپ کی ڈیموکریٹ امیدوار ہوں کیوں کہ جو بائیڈن نے آخرکار بحث میں اپنی بڑھاپے کا مظاہرہ کیا۔"
اس میں دعوی کیا جاتا ہے کہ ہیرس امریکی معاشرے میں تنوع کو ظاہر کرنے والی مختلف شخصیت ہیں کیوں کہ وہ ایک خاتون اور غیر سفید فام ہیں۔
SEE ALSO: امریکی صدارتی الیکشن: ‘روسی مداخلت سے بائیڈن کو نقصان اور ٹرمپ کو فائدہ’
اس ویڈیو میں ’ہیرس برائے صدر‘ کے اشتہاری ٹائٹل کو برقرار رکھا گیا ہے اور اس میں ہیرس کے ماضی کے کچھ حقیقی کلپس کا اضافہ بھی کیا گیا ہے۔
کاملا ہیرس کی انتخابی مہم کی ترجمان میا ایرنبرگ نے خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کو ایک ای میل میں بتایا کہ "ہمیں یہ یقین ہے کہ امریکی عوام حقیقی آزادی، مواقع اور سلامتی چاہتے ہیں جو نائب صدر ہیرس ان کو پیش کر رہی ہیں نہ کہ ایلون مسک اور ڈونلڈ ٹرمپ کے جعلی، ہیرا پھیری والے جھوٹ۔"
’اے پی‘ کی رپورٹ کے مطابق انٹرنیٹ پر وسیع پیمانے پر شیئر کی جانے والی یہ ویڈیو اس بات کی مثال ہے کہ کس طرح مصنوعی ذہانت کی مدد سے تیار کردہ زندگی بھر کی تصاویر، ویڈیوز یا آڈیو کلپس کو مذاق اڑانے اور سیاست کے بارے میں گمراہ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے اور یہ سب اس وقت ہو رہا ہے جب امریکہ میں الیکشن قریب آ رہے ہیں۔
SEE ALSO: اے آئی: بائیڈن کی نقلی آواز میں روبو کالز، ایک سیاسی مشیر پر فرد جرم عائدایسے وقت میں جب آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے اعلیٰ آلات آسانی سے دستیاب ہیں یہ ویڈیو ان کے استعمال کے بارے میں امریکہ میں وفاقی ریگولیشن کی کمی کو ظاہر کرتی ہے۔ سیاسی معاملات میں میں مصنوعی ذہانت کے استعمال کے قواعد امریکہ کی ریاستوں اور سوشل میڈیا کے دائرہ اختیار میں ہیں۔
ویڈیو یہ سوال بھی اٹھاتی ہے کہ طنز کے زمرے میں آنے والے مواد کو کس طرح بہتر طریقے سے دیکھا جائے کیوں کہ یہ آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے مناسب استعمال کے ابہام کے قریب لے جاتا ہے۔
ویڈیو پوسٹ کرنے والے اصل صارف اور یوٹیوبر مسٹر ریگن نے یوٹیوب اور ایکس دونوں پر واضح کیا ہے کہ تبدیل شدہ ویڈیو ایک پیروڈی ہے۔
تاہم، ایلون مسک کی پوسٹ کو ایکس پلیٹ فارم کے مطابق 12 کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ بار دیکھا جا چکا ہے۔ انہوں نے یہ پوسٹ صرف ہنسنے والے ایموجی کے ساتھ ’یہ حیرت انگیز ہے‘ کے کیپشن کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ کے صارفین جو اس سے واقف ہیں کہ وہ مسک کی پوسٹ کو کلک کر کے اصل پوسٹ تک کیسے جا سکتے ہیں جہاں اس ویڈیو کے بارے میں پوسٹ کرنے والے کا ڈس کلیمر یعنی انکشاف نظر آتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
لیکن مسک کا کیپشن صارفین کو ایسا کرنے کو نہیں کہتا ہے۔
ایکس کو استعمال کرنے والی کمیونٹی کے کچھ ارکان نے مسک کی پوسٹ میں سیاق و سباق شامل کرنے کی تجویز دی۔ لیکن اتوار کی سہ پہر تک اس میں ایسا کوئی لیبل شامل نہیں کیا گیا تھا۔
کچھ آن لائن صارفین نے یہ سوال اٹھایا کہ آیا یہ پوسٹ ایکس پلیٹ فارم کی ان پالیسیوں کی خلاف ورزی کرتی ہے جو ہیرا پھیری کر کے بنائے گئے متن یا سیاق و سباق سے ہٹ کر بنائی گئی ایسی پروڈکشن کو شیئر کرنے سے ممانعت کرتی ہیں، جو لوگوں کو دھوکہ دے یا الجھن میں ڈالے اور نقصان پہنچائے۔
اس پالیسی کے تحت میمز اور طنز والی پوسٹس کے لیے اس صورت میں استثنیٰ ہے جب وہ میڈیا کی صداقت کے بارے میں کوئی بڑی اہم الجھن پیدا نہ کریں۔
واضح رہے کہ ایلون مسک نے اس ماہ کے شروع میں ری پبلکن پارٹی کے نامزد صدارتی امیدوار اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کی تھی۔
SEE ALSO: بھارتی انتخابات میں آرٹیفیشل انٹیلی جینس اور ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا بڑے پیمانے پر استعمالمصنوعی ذہانت سے تیار کردہ میڈیا کے دو ماہرین نے جعلی اشتہار کی آڈیو کا جائزہ لینے کے بعد تصدیق کی ہے کہ اس کا زیادہ تر حصہ آرٹیفیشل ٹیکنالوجی کے ذریعے تیار کیا گیا تھا۔
’اے پی‘ نے رپورٹ میں کہا کہ نہ تو ابتدائی پوسٹ شیئر کرنے والے یو ٹیوبر ریگن اور نہ ہی مسک نے اتوار کو تبصرہ کے لیے اس کی ای میلز کا فوری طور پر جواب دیا۔
اس رپورٹ میں شامل مواد خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے۔