بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں اس وقت جو موضوع سب سے زیادہ زیرِ بحث ہے وہ وزیرِِ اعظم نریندر مودی کی حکومت اور مغربی بنگال کی وزیرِِ اعلیٰ اور ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کی رہنما ممتا بینرجی کے درمیان جاری سیاسی ٹکراؤ ہے۔
نئی دہلی میں یہ ضمنی بحث بھی جاری ہے کہ کیا ممتا بینرجی 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں قومی سطح پر نریندر مودی کے متبادل کے طور پر سامنے آ سکتی ہیں اور اگر اس کا امکان ہے تو کیا حزبِ اختلاف کی دیگر جماعتیں انہیں اپنا رہنما تسلیم کر لیں گی؟
مبصرین کا خیال ہے کہ مغربی بنگال کے اسمبلی انتخابات میں ممتا بینرجی کے ہاتھوں شکست نہ صرف بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیے نا قابلِ فراموش ہے بلکہ خود وزیرِِ اعظم نریندر مودی بھی اسے فراموش نہیں کر پا رہے۔
اسمبلی انتخابات میں وزیرِ اعظم مودی، وزیرِ داخلہ امت شاہ اور دیگر بی جے پی رہنماوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ 294 رکنی ریاستی اسمبلی میں بی جے پی کو 200 سے زیادہ نشستیں ملیں گی۔ ممتا بینرجی کی ٹی ایم سی 100 نشستوں سے کم پر سمٹ جائے گی۔ تاہم ٹی ایم سی کو 211 نشستیں ملیں اور بی جے پی کو 75 نشستیں حاصل کیں۔
دو واقعات سے ٹکراؤ میں شدت
مبصرین کے مطابق مودی حکومت اور ممتا بینرجی کے درمیان ٹکراؤ میں اس وقت شدت آئی جب گزشتہ ماہ 18 مئی کو سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی) نے ممتا بینرجی کی حکومت کے دو وزرا اور دو دیگر رہنماؤں کو ایک پانچ سال پرانے بدعنوانی کے کیس میں گرفتار کیا۔
اس کے بعد 28 مئی کو مغربی بنگال کے ویسٹ مدنا پور کے کلائی کنڈا ایئر بیس پر یاس طوفان کا جائزہ لینے کے لیے وزیرِ اعظم کے اجلاس میں ممتا بینرجی نے انہیں نصف گھنٹے تک انتظار کرایا اور پھر بھی نہیں پہنچیں۔
SEE ALSO: بھارت: ممتا بنرجی نے مسلسل تیسری بار مغربی بنگال کی وزیرِ اعلیٰ کے عہدے کا حلف اٹھا لیاممتا بینرجی کے اس رویے پر مرکزی حکومت نے سخت کارروائی کی اور ریاست کے چیف سیکریٹری الپن بندو پادھیائے کا، جو کہ ممتا کے قریبی ساتھی ہیں، اگلے ہی روز تبادلہ کر دیا اور دہلی میں حاضر ہونے کا حکم دیا۔
الپن بندو پادھیائے 31 مئی کو اپنے منصب سے سبکدوش ہونے والے تھے۔ لیکن حکومت نے ان کی مدت ملازمت میں تین ماہ کی توسیع کر دی۔ تاہم مرکزی حکومت کے اس حکم کے بعد ممتا نے انہیں 31 مئی کو ہی سبکدوش کر دیا اور انہیں اپنا مشیر اعلیٰ مقرر کر دیا۔
اس کے بعد مرکزی حکومت نے الپن کو شو کاز نوٹس جاری کیا جس کے جواب میں الپن نے کہا کہ وہ وزیرِ اعلیٰ کے ساتھ دوسرے پروگرام میں مصروف تھے۔ اس لیے اجلاس میں شریک نہیں ہو سکے۔
ممتا بینرجی نے اپنی صفائی میں کہا کہ حکومت اور بی جے پی کی جانب سے غلط پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ ان کا پہلے سے ہی کسی دوسری جگہ پروگرام طے تھا۔ وہ اجلاس میں پہنچی تھیں اور وزیرِ اعظم سے ملاقات کرکے ان سے اجازت لے کر فوراً چلی گئی تھیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق ممتا او رالپن بندو پادھیائے کے جواب سے مودی حکومت مطمئن نہیں ہوئی ہے۔
'مسٹر بزی پرائم منسٹر'
اس کے بعد ممتا نے کولکتہ میں ایک نیوز کانفرنس میں وزیرِ اعظم مودی کا سخت لب و لہجے میں ذکر کیا اور ‘مسٹر پرائم منسٹر، مسٹر بزی پرائم منسٹر’، ‘مسٹر من کی بات پرائم منسٹر’ کہہ کر ان کا ذکر کیا۔
پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ وہ ان کو سیاسی طور پر ختم کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ ایسا کبھی نہیں کر سکتے۔
ممتا بینرجی کا مزید کہنا تھا کہ وہ لڑیں گی اور جیتیں گی۔ ان کے بقول ‘جو ڈر جاتا ہے وہ مر جاتا ہے۔‘
سینئر صحافی اور تجزیہ کار ویریندر سینگر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ آج تک کسی نے وزیرِ اعظم مودی کو اس انداز سے مخاطب نہیں کیا تھا۔ ممتا بینرجی نے انتخابات میں شکست دے کر اور مذکورہ اندازِ خطاب سے مودی کا یہ تاثر کمزور کر دیا کہ مودی ایک انتہائی طاقت ور سیاست دان ہیں اور ان کے سامنے کوئی بول نہیں سکتا۔
نئے سیاسی اتحاد کی آہٹ
ویریندر کا کہنا ہے کہ مغربی بنگال کے انتخابی نتائج نے ملک میں ایک نئے سیاسی اتحاد کی آہٹ پیدا کر دی ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ 2024 سے پہلے ہی بلکہ آئندہ برس اتر پردیش اور بعض دیگر ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے موقع پر ہی بی جے پی کے خلاف قومی سطح پر ایک نیا سیاسی اتحاد ابھر کر سامنے آسکتا ہے۔
ان کے خیال میں متنازع زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی تحریک بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ کیوں کہ بقول ان کے اب یہ صرف کسان تحریک نہیں رہی بلکہ ملک میں جمہوریت کے تحفظ کی ایک سیاسی و سماجی تحریک میں تبدیل ہو چکی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ کسانوں نے بنگال میں بی جے پی کے خلاف انتخابی مہم چلائی تھی اور اب وہ دوسری ریاستوں میں بھی چلانے جا رہے ہیں۔
لیکن کولکتہ سے تعلق رکھنے والے دہلی میں مقیم سینئر تجزیہ کار انجم نعیم اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے۔
ان کا کہنا ہے کہ ممتا بینرجی کا سیاسی اثر و رسوخ صرف بنگال تک محدود ہے۔ اس کے علاوہ ان کی صحت بھی ٹھیک نہیں رہتی۔ وہ ہائی بلڈ شوگر کی مریضہ ہیں۔
ان کے خیال میں اس کا امکان کم نظر آتا ہے کہ بنگال سے کوئی لیڈر آئے اور پورے ملک کے عوام اس کو مودی کے متبادل کے طور پر تسلیم کر لیں۔ اس سے قبل بھی ممتا نے بنگال میں دو تین بار اجلاس منعقد کیے اور دوسری سیاسی جماعتوں کو یکجا کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکی تھیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ خود ممتا بینرجی بھی اس بات کو اچھی طرح سمجھتی ہیں کہ ان کا میدان بنگال ہی ہے۔ اس کے علاوہ ایسا نہیں لگتا کہ دوسری جماعتوں کے لوگ ان کو قبول کر لیں گے۔
ممتا، مودی کا متبادل بن سکتی ہیں؟
تاہم ویریندر سینگر اس معاملے میں کافی پرامید نظر آتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اب حالات بدل گئے ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں بھی دیکھ رہی ہیں کہ مودی حکومت ہر محاذ پر ناکام ہے۔ خاص طور پر کرونا کے سلسلے میں پوری دنیا میں بھارت کی بدنامی ہوئی ہے۔
اس لیے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دوسری جماعتیں بھی مجبوری کے تحت ممتا کو رہنما مان لیں گی۔
ان کے خیال میں اصل اپوزیشن جماعت کانگریس میں اب اتنی طاقت نہیں رہی کہ وہ مودی کے خلاف کوئی محاذ بنا سکے یا اگر کوئی محاذ بنتا ہے تو اس کی مخالفت کر سکے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ممتا بینرجی مرکزی حکومت میں بھی رہی ہیں۔ وہ کئی وزارتیں سنبھال چکی ہیں۔ وہ اب ٹھیک ٹھاک ہندی بھی بول لیتی ہیں۔ اس لیے ان کا خیال ہے کہ 2024 سے پہلے ہی کوئی محاذ بنے گا اور اس کے مرکز میں ممتا ہی رہیں گی۔
ان کے مطابق کمیونسٹ پارٹیوں میں اعلیٰ سطح پر یہ گفتگو ہونے لگی ہے کہ ایک بڑے مقصد اور ملک و جمہوریت کو بچانے کے لیے ہمیں آپس کے اختلافات کو فراموش کرکے کوئی قومی محاذ کی تشکیل دینا چاہیے۔
ویریندر سینگر ایمرجنسی کے بعد کے حالات کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس وقت تو حزب اختلاف اس سے بھی کمزور تھی۔ اس کے پاس وسائل بھی نہیں تھے۔ لیکن اس کے باوجود اندرا گاندھی کو زبردست شکست ہوئی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ اس وقت کئی وجوہات سے عوام میں مودی حکومت کے خلاف ناراضگی ہے۔ کرونا وبا کے سلسلے میں حکومت کی ناکامی اور مہنگائی و بے روزگاری میں اضافے نے عوام کو حکومت کے خلاف سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔
ان کے مطابق وہ کئی علاقوں کے دورے کر چکے ہیں اور اکثر جگہوں پر لوگ حکومت سے ناراض ہیں۔ جو لوگ کسان تحریک میں شامل نہیں ہیں وہ بھی حکومت سے خوش نہیں ہیں۔
بنگال میں بی جے پی تقسیم کے دہانے پر
انجم نعیم اس سے تو اتفاق کرتے ہیں کہ اس وقت مودی حکومت کے خلاف عوام میں بے اطمینانی ہے اور ممتا کی طرف لوگ پرامید نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ممتا اپنی حدود پہچانتی ہیں اور شاید وہ خود کسی قومی سطح کے محاذ کی قیادت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔
تاہم وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس وقت بنگال میں بی جے پی تقسیم کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔ اس کے کم از کم دو ارکان پارلیمنٹ اور 33 رہنما ٹی ایم سی میں جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کئی لیڈروں نے کھلے عام ممتا سے معافی مانگی ہے اور دوبارہ پارٹی میں واپسی کی خواہش ظاہر کی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اسمبلی الیکشن سے قبل بی جے پی نے ٹی ایم سی کے بہت سے لیڈروں کو توڑ لیا تھا۔ ان میں کئی ارکان اسمبلی بھی تھے۔ لیکن اب جب کہ بی جے پی ہار گئی ہے تو وہ تمام لوگ ٹی ایم سی میں دوبارہ شمولیت چاہتے ہیں۔
ٹی ایم سی کا دعویٰ ہے کہ بی جے پی کے کم از کم تین ارکان پارلیمنٹ اور سات ارکان اسمبلی بی جے پی چھوڑ کر ٹی ایم سی میں جانے کے خواہش مند ہیں۔ لیکن پارٹی اس بارے میں عجلت میں کوئی فیصلہ کرنا نہیں چاہتی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نریندر مودی اور امت شاہ دوسری پارٹیوں کو توڑنے کی جو کامیاب کوشش کرتے رہے ہیں، وہ کھیل اب بنگال میں الٹا پڑ گیا ہے اور اب بی جے پی ہی وہاں ٹوٹ رہی ہے۔
ایک نظریہ یہ بھی
ادھر نشریاتی ادارے ‘انڈیا ٹوڈے’ کے صحافی پربھاش دتہ ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ ابھی شاید وہ وقت نہیں آیا کہ مودی کا کوئی متبادل بن سکے۔ وہ اس سلسلے میں امریکی ایجنسی ‘مارننگ کنسلٹ’ کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہیں۔ جس میں گوکہ مودی کی ریٹنگ کم دکھائی گئی ہے لیکن اب بھی 63 فی صد پر ان کی مقبولیت ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا ہے کہ مودی اور ممتا میں پہلے بہت اچھے رشتے تھے۔ دونوں ایک دوسرے کی تعریف کرتے رہے ہیں لیکن 2016 کے اسمبلی انتخابات میں مودی نے ریاست میں ہونے والے ناردا شاردا بدعنوانی کیس کا خوب ذکر کیا تھا جس میں ٹی ایم سی کے کارکنوں اور رہنماؤں پر بدعنوانی کے الزامات تھے۔
ان کے جواب میں ممتا نے انہیں ‘ایکسپائری بابو’ کہہ کر مخاطب کیا تھا اور کہا تھا کہ انہیں جمہوریت کے ڈوز کی ضرورت ہے۔
پربھاش دتہ کے بقول 2018 کے پارلیمانی اور 2021 کے اسمبلی انتخابات میں وزیرِ اعظم مودی اور ان کی پارٹی کے دوسرے رہنماؤں نے جس انداز میں ممتا کے خلاف مہم چلائی اس نے ان دونوں کے رشتوں میں اور تلخی پیدا کر دی۔
لیکن وہ اس کو تسلیم کرتے ہیں کہ ممتا بینرجی اسمبلی انتخابات میں اگرچہ اپنی سیٹ نہیں بچا سکیں لیکن وہ وزیرِ اعظم مودی کے سامنے ایک طاقت ور ممکنہ چیلنج بن کر ابھری ہیں۔ حالانکہ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب کوئی علاقائی رہنما مودی کا متبادل بن کر ابھرا ہو۔
اس سلسلے میں وہ عام آدمی پارٹی کے رہنما اور دہلی کے وزیرِ اعلیٰ اروند کیجری وال، آندھرا پردیش کے سابق وزیرِ اعلیٰ اور تیلگو دیسم پارٹی کے صدر چندربابو نائیڈو اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے صدر شرد پوار کا ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ لوگ بھی متبادل بن کر ابھرے تھے لیکن مودی کی مقبولیت کو کم نہیں کر سکے۔
مقبولیت میں کمی کے دعوے بے بنیاد
بی جے پی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم مودی کی مقبولیت میں کمی کے دعوے بے بنیاد ہیں۔ اب بھی مودی ملک کے سب سے مقبول رہنما ہیں۔ بی جے پی کے ترجمان نیوز چینلوں پر حکومت کا دفاع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
وزیرِ داخلہ امت شاہ نے چار جون کو ایک بیان میں کہا کہ بھارت نریندر مودی کی قیادت میں کرونا وبا پر قابو پانے میں کامیاب رہا ہے۔
SEE ALSO: بھارت کی معیشت کرونا وائرس کے باعث شدید متاثر، چار دہائیوں میں کم ترین شرح نموان کے مطابق ترقی یافتہ ممالک بھی کرونا سے بری طرح متاثر نظر آئے لیکن ہم نے بھارت میں اس کو زیادہ پھیلنے سے روک دیا۔
وزیرِ اعظم نریندر مودی نے چار جون کو کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (سی ایس آئی آر) کے اجلاس سے آن لائن خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے سائنس دانوں نے ایک سال کے اندر اندرون ملک ویکسین تیار کرکے اس وبا سے انسانیت کو نجات دلانے کا عظیم کارنامہ انجام دیا ہے۔
ان کے بقول ہمارے سائنس دانوں نے کم وقت میں ادویات دریافت کیں اور آکسیجن کی پیداوار میں اضافے کے راستے تلاش کیے۔
سروے رپورٹس کا نتیجہ
سروے کرنے والی دہلی کی ایک ایجنسی سینٹر فار اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹیز (سی ایس ڈی ایس) کے ابھے کمار دو سروے رپورٹس کا حوالہ دیتے ہیں۔
امریکی ایجنسی مارننگ کنسلٹ اور دہلی کے نشریاتی ادارے ‘اے بی وی پی’ اور سی ووٹر کے ایک حالیہ سروے کے مطابق مودی کی مقبولیت میں کمی دکھائی گئی ہے۔
انہوں نے ایک سینئر صحافی اور ہندی ہفت روزہ ‘چوتھی دنیا’ کے ایڈیٹر سنتوش بھارتیہ کے ایک یو ٹیوب پروگرام ‘لاوڈ انڈیا’ میں بولتے ہوئے کہا کہ سی ووٹر کا سروے بہت اہم ہے۔ اس کے مطابق 31 فی صد رائے دہندگان کا کہنا ہے کہ وہ مودی حکومت کے سات برسوں کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔ تاہم 37 فی صد کا کہنا ہے کہ وہ بالکل مطمئن نہیں ہیں۔ جب کہ 28 فی صد ایسے ہیں جو جزوی طور پر متفق اور جزوی طور پر ناراض ہیں۔
ابھے دوبے کہتے ہیں کہ یہ جو 28 فی صد لوگ ہیں یہ مودی حکومت کے خلاف بھی جا سکتے ہیں۔ لہٰذا ان کو 31 فی صد میں شمار کرنے کے بجائے 37 فی صد میں شمار کرنا چاہیے۔
خیال رہے کہ پارلیمانی انتخابات میں مودی کو 38 فی صد ووٹ ملے تھے۔ اس لحاظ سے ان کی مقبولیت میں کافی کمی آئی ہے۔
سی ووٹر کا کہنا ہے کہ یہ سروے یکم جنوری سے 28 مئی 2021 کے درمیان 543 لوک سبھا حلقوں میں ایک لاکھ 39 ہزار افراد سے پوچھے گئے سوالوں پر مبنی ہے۔
ابھے دوبے کہتے ہیں کہ اگر آج پارلیمانی انتخابات ہوں تو مودی حکومت کو محض 31 فی صد ہی ووٹ ملیں گے۔
اس رپورٹ کے مطابق 41.1 فی صد رائے دہندگان کا کہنا ہے کہ کرونا وبا مودی حکومت کی پہلی بڑی ناکامی ہے۔ 23.1 فی صد کا کہنا ہے کہ زرعی قوانین دوسری بڑی ناکامی ہے۔