خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں گزشتہ سات برس سے طالبات کو مفت سواری فراہم کرنے والے رکشہ ڈرائیور عرب شاہ نے اب اس مقصد کے لیے سوزوکی وین خرید لی ہے۔ تاکہ زیادہ طالبات تعلیم حاصل کرنے کے لیے بلا معاوضہ اسکول جا سکیں۔
عرب شاہ نے یہ گاڑی لڑکیوں کی تعلیم کے لیے سرگرم نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کے مالی تعاون سے خریدی ہے۔
عرب شاہ سات سال تک آٹو رکشے کے ذریعے لگ بھگ 100 طالبات کو اسکول کے لیے مفت سواری فراہم کرتے رہے ہیں۔
گاڑی ملنے کے بعد وہ مقامی پرائمری اسکولوں کے علاوہ فاصلے پر واقع ہائی اسکول میں زیرِ تعلیم لڑکیوں کو بھی مفت ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کر رہے ہیں۔
عرب شاہ اس کے علاوہ مذہبی درس گاہوں میں زیرِ تعلیم طالبات کو بھی یہ سہولت فراہم کر رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں عرب شاہ نے کہا کہ ان کے علاقے میں نقل و حمل خواتین کی تعلیم میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے زیادہ تر لڑکیاں پرائمری کے بعد تعلیم چھوڑ دیتی ہیں۔ لہٰذا ان کی کوشش ہے کہ خواتین تعلیم حاصل کریں اور ان کی تعلیم کو فروغ ملے۔
اُنہوں نے یاد دلایا کہ ملالہ یوسف زئی بھی حصولِ تعلیم کو فروغ دینے کی پاداش میں شدت پسندوں کا نشانہ بنی تھیں۔
عرب شاہ کون ہے؟
اکتیس سالہ عرب شاہ کا تعلق پشاور کے ورسک روڈ پر واقع علاقے پیر بالا سے ہے۔
عرب شاہ کی جب پانچ بہنیں ہیں جو تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہی ہیں۔ ان کے بقول اسی وجہ سے ان کو نہ صرف اس کا دکھ ہے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ اب علاقے کی لڑکیاں تعلیم سے محروم نہ ہوں اور وہ ان کی مدد کے لیے اپنا وقت اور سرمایہ استعمال کرتے ہیں۔
عرب شاہ نے بی اے کیا ہے۔ مگر مالی مشکلات کے باعث مزید تعلیم حاصل نہیں کر سکے۔
عرب شاہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ سرکاری نوکری تو سفارش پر ملتی ہے اسی وجہ سے وہ 2012 سے رکشہ چلا رہے ہیں۔ دسمبر 2020 سے وہ ملالہ یوسف زئی کے مالی تعاون سے گاڑی کے مالک بن گئے ہیں۔
عرب شاہ اپنے چھوٹے بھائی کو تعلیم حاصل کرنے میں بھر پور تعاون کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انہوں غریب اور نادار بچیوں کو اسکول لے جانے اور لانے کا سلسلہ سات سال قبل شروع کیا تھا۔ اُس وقت وہ آٹو رکشہ میں ان طالبات کو لے جاتے اور لاتے تھے۔
آٹو رکشہ میں ٹرانسپورٹ کی مفت سہولیات سے استفادہ کرنے والے طالبات کی تعداد عرب شاہ کے بقول 100 تھی اور اس کی تشہیر مختلف ذرائع ابلاغ اور نجی ٹیلی وژن کے ذریعے ہوئی تھی۔
ان کے مطابق جب ذرائع ابلاغ کے ذریعے ملالہ یوسف زئی کو ان کے بارے میں معلوم ہوا تو انہوں نے ایک ٹوئٹ پیغام میں عرب شاہ کے اس کارخیر پر خوشی کا اظہار کیا تھا اور اُنہوں نے عرب شاہ کو گاڑی خریدنے کے لیے رقم بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔
عرب شاہ نے بتایا کہ 30 جنوری 2020 کو ملالہ یوسف زئی کے والد ضیا الدین یوسف زئی نے ایک ٹوئٹ پیغام میں ان کے بارے میں ایک خبر شیئر کی تھی اس کے کپیشن میں لکھا کہ عرب شاہ ایک بہت بڑا انسان ہے۔
عرب شاہ کے بقول کوئی بھی اچھا کام کرنے کے لیے بڑا دل ہونا چاہیے۔
اس ٹوئٹ پیغام کے بعد ان کا ضیا الدین یوسف زئی سے رابطہ ہوا تھا اور مختلف اوقات میں وہ ان کا معلومات اور پیغامات کا تبادلہ ہوتا رہا ہے۔
عرب شاہ کا کہنا ہے کہ پہلے وہ کرائے پر لیے گئے رکشے میں طالبات کو ان کے اسکولوں کو لے جاتے اور لاتے تھے۔ جب ملالہ یوسف زئی کے والد نے ان کو نیا رکشہ خریدنے میں مالی معاونت کی پیشکش کی تو انہوں نے از خود گاڑی خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس خواہش کے جواب میں حال ہی میں ضیا الدین یوسف زئی نے عرب شاہ کو گاڑی خریدنے کے لیے چھ لاکھ روپے بھیجے تھے جس سے انہوں نے گاڑی خریدی ہے۔
عرب شاہ کی معمولات
عرب شاہ کا کہنا ہے کہ وہ صبح سویرے سات بجے اُٹھتے ہیں اور مختلف جگہوں سے طالبات کو اسکولوں میں پہنچاتے ہیں۔ وہ طالبات کو اسکولوں تک پہنچانے کا سلسلہ تقریباََ ڈیڑھ گھنٹے یعنی ساڑھے آٹھ بجے تک مکمل کرتے ہیں اور ان طالبات کو دوپہر ایک بجے سے لے کر تین بجے تک واپس ان کے گھروں تک پہنچاتے ہیں۔
یہ طالبات ٹولیوں کی شکل میں مختلف مقامات پر جمع ہوتی ہیں۔ جہاں سے ان کو گاڑی میں بیٹھا کر اسکولوں اور مدرسوں میں چھوڑتے ہیں۔
عرب شاہ کے بقول ان طالبات کو مفت ٹرانسپورٹ کی فراہمی پر 15 سے 20 ہزار روپے ماہانہ خرچ ہوتا ہے۔ جب کہ ان کی ماہانہ آمدن 40 سے 50 ہزار تک ہے۔
طالبات کو تعلیمی اداروں میں پہنچانے اور واپس گھروں تک لے جانے کے بعد وہ دن بھر اس گاڑی سے محنت مزدوری کرتے ہیں جس سے ان کے گھریلو اخراجات باآسانی پورے ہو جاتے ہیں۔
طالبات بھی عرب شاہ کی شکر گزار
عرب شاہ کے رکشے اور گاڑی سے استفادہ کرنے والی طالبات ان کو بھائی کہہ کر پکارتی ہیں۔ جب کہ وہ عرب شاہ کی یہ سہولیات فراہم کرنے پر بہت شکر گزار بھی ہیں۔
عرب شاہ کے ساتھ ساتھ یہ طالبات، جن میں ثناء، عائشہ اور تسلیم کے علاوہ دیگر شامل ہیں، ملالہ یوسف زئی اور ان کے والد ضیا الدین کی مشکور ہیں۔
یہ تمام طالبات نہ صرف کم آمدن والے گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں بلکہ ان میں کئی ایک یتیم اور بے سہارا لڑکیاں بھی شامل ہیں۔