آب و ہوا کی تبدیلی کے خلاف جنگ میں دو براعظموں میں ایک ساتھ کی جانے والی کوششوں میں سائنس دانوں نے ایک اہم سنگ میل عبور کرتے ہوئے ایک بہت بڑا مقناطیس تیار کیا ہے، جس سے بڑے پیمانے پر توانائی حاصل کی جا سکے گی۔
جمعرات کو جنوبی فرانس میں بین الاقوامی تھرمونیوکلیئر تجرباتی ری ایکٹر کے سائنس دانوں نے ایک بہت بڑے مقناطیس کے پہلے حصے کو خصوصی انتظامات کے تحت ٹرانسپورٹ کیا۔ سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ یہ مقناطیس اتنا طاقت ور ہے کہ وہ ایک طیارہ بردار بحری جہاز کو کھینچ سکتا ہے۔
مکمل ہونے کے بعد یہ مقناطیس تقریباً 60 فٹ اونچا اور اس کا قطر لگ بھگ 14 فٹ ہو گا۔ یہ مقناطیس ایک بہت بڑے جوہری بجلی گھر کا اہم حصہ ہے۔ اس بجلی گھر میں توانائی کے جوہری اخراج کے اصول کے تحت بجلی پیدا کی جائے گی۔ اس منصوبے پر 35 ممالک مل کر کام کر رہے ہیں۔
میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے سائنس دانوں اور ایک نجی کمپنی نے اس ہفتے علیحدہ علیحدہ اعلان کیا کہ انہوں نے بھی دنیا کے سب سے طاقت ور ہائی ٹمپریچر سپر کنڈکٹنگ مقناطیس کے کامیاب ٹیسٹ کے ساتھ ایک سنگ میل عبور کر لیا ہے، جس سے اس قدر زیادہ توانائی خارج ہو گی جو گویا زمین پر ایک سورج بنانے کے مترادف ہے۔
عمومی طور پر فشن ری ایکٹرز سے تابکاری خارج ہوتی ہے جو بہت زیادہ نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے، اس کے برعکس اس مقناطیس کو جس ری ایکٹر میں استعمال کیا جائے گا اس سے تابکاری خارج نہیں ہو گی۔
SEE ALSO: گلوبل وارمنگ پر اقوام متحدہ کی رپورٹ: دنیا سرخ لکیر کے قریب پہنچ گئیمذکورہ ری ایکٹر قدرتی اصول پر کام کرے گا جس طرح کائنات میں ستاروں میں ہائیڈروجن ایٹموں کے ملنے سے ہیلیم کا ایٹم بننے کے ساتھ بڑے پیمانے پر توانائی خارج ہوتی ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ایٹمی فیوژن سے بڑے پیمانے پر حرارت خارج ہوتی ہے۔ مصنوعی طریقے سے توانائی پیدا کرنے کے لیے بہت زیادہ حرارت اور دباؤ کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ مقناطیس اسی مقصد کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کا، جسے آئی ٹی ای آر کہا جاتا ہے، 75 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے اور 2026 کے شروع تک یہ ری ایکٹر تیار ہو جائے گا۔
آئی ٹی ای آر کے ترجمان لیبن کوبلنٹز نے کہا ہے کہ اپنی نوعیت کے ناقابل یقین قوت رکھنے والے اس مقناطیس کے ہر حصے کی تیاری پر ہمیں خوشی ہو گی اور ہمارے اعتماد میں اضافہ ہو گا اور ہم مستقبل قریب میں اسے مکمل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
اس منصوبے کا ہدف 2035 تک اس سے جوہری عمل کے آغاز کے لیے درکار توانائی پیدا کرنا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری جانب مسیاچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے سائنس دانوں نے آئی ٹی ای آر کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ان سے دو گنا زیادہ طاقت ور مقناطیس بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں، جس کا حجم اس سے تقریباً 40 گنا کم ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ 2030 کے عشرے میں اپنا فیوژن سسٹم تیار کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
اس پراجیکٹ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ ناکام ہو بھی جائے تو بھی اس منصوبے میں شامل ممالک کے سائنس دان ایک ایسی تکنیکی مہارت حاصل کریں گے جسے دوسرے شعبوں میں استعمال کیا جا سکے گا۔
تقریباً 20 ارب ڈالر کے اس منصوبے میں امریکہ، روس، چین، جاپان، بھارت، جنوبی کوریا اور یورپ کے کئی ممالک شامل ہیں۔
جنرل ایٹمکس میں انجینئرنگ اور پراجیکٹس کے ڈائریکٹر جان سمتھ کا کہنا ہے کہ مقناطیس کے پرزے بنانے اور انہیں منتقل کرنے کے لیے کئی سال درکار ہیں، جن میں ڈھائی لاکھ پاؤنڈ وزنی کوائل بھی شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی ٹی ای آر کا ہدف یہ ثابت کرنا ہے کہ فیوژن توانائی کا حصول ایک قابل عمل اور معاشی طور پر فائدہ مند طریقہ ہے۔ اس عمل کے ذریعے بڑے پیمانے پر شفاف توانائی حاصل کی جا سکتی ہے۔
اسمتھ نے بتایا کہ یہ منصوبہ آب و ہوا کی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ کو کنٹرول کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اس کی مدد سے پیدا ہونے والی توانائی سے گرین ہاؤس گیسیں خارج نہیں ہوں گی۔ اور اس منصوبے کی کامیابی کی صورت میں 2050 میں گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج صفر تک لانے کا ہدف حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔
اسمتھ نے اس منصوبے کی کثیر لاگت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بلاشبہ یہ ایک مہنگا پراجیکٹ ہے۔ لیکن اگر اس کا موازنہ آب و ہوا کی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ سے پہنچنے والے نقصانات سے کیا جائے تو یہ انتہائی کم قیمت ہے۔
(اس رپورٹ کا کچھ مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے)