پاکستان میں حملے روکنا ہماری ذمہ داری نہیں: افغان طالبان

فائل فوٹو

افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ پاکستان کے اندر حملوں کو روکنا ان کی ذمہ داری نہیں ہے۔ پاکستان کو اپنی امن و امان کی صورتِ حال پر سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے اور اس کا حل اپنے گھر میں تلاش کرنا چاہئے۔

ذبیح اللہ مجاہدنے بدھ کو ایک ٹویٹ میں کہا کہ " پاکستان میں حالیہ افسوس ناک واقعات کے بعد ایک بار پھر پاکستانی حکام نے اپنے ملک کی سیکیورٹی مضبوط کرنے کے بجائے ان واقعات کی ذمہ داری افغان عوام پر عائد کی ہے۔امارت اسلامیہ افغانستان یہ الزامات مسترد کرتی ہے۔"

طالبان افغانستان کے لیے 'اماراتِ اسلامیہ افغانستان' کا نام استعمال کرتے ہیں۔

ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ افغانستان طویل جنگوں سے نکلا ہوا ملک ہے اور کسی بھی ملک خصوصاََ پڑوسی ممالک میں ہرگز بدامنی نہیں چاہتا۔ افغانستان اپنی سر زمین کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔

انہوں نےمزید کہااس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ افغانستان خطے کے ہر ملک کی سیکیورٹی کی ناکامی کا ذمہ دار ہے۔

افغان طالبان کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے دو روز قبل پشاور میں ایک گرینڈ جرگے سے خطاب میں، بقول ان کے، ’افغان سر زمین پر کالعدم تنظیموں کی آزادانہ سرگرمیوں‘ پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

فوجی سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ دہشت گردی کے واقعات میں افغان شہریوں کا ملوث ہونا خطے کے امن و استحکام کے لیے خطرہ ہے۔ افغان مہاجرین کو پاکستان کے قوانین کے مطابق رہنا ہوگا۔

پاکستان میں دہشت گردی کے حالیہ حملوں کے بعد حکومت اور فوج کی جانب سے افغانستان پر انگلیاں اٹھائی جاتی رہی ہیں۔

بارہ جولائی کو ژوب چھاؤنی پر دہشت گردوں کے حملے میں نو سیکیورٹی اہل کار ہلاک ہوئے تھے۔ پاکستانی فوج نے اس کارروائی کے دوران پانچ دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا جب کہ پاکستان کے دفترِ خارجہ نے کہا تھا کہ ژوب کینٹ پر حملہ کرنے والے تین دہشت گردوں کا تعلق افغان صوبے قندھار سے تھا۔

SEE ALSO: ٹی ٹی پی کے خلاف 'جہاد' پر زور، کیا پاکستان فوج کی پالیسی تبدیل ہوئی ہے؟

دفترِ خارجہ نے افغان حکام سے کہا تھا کہ وہ اس واقعے میں ہلاک ہونے والے افغان شہریوں کی لاشیں وصول کرلے۔ دفتر خارجہ نے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں افغان سرزمین اور افغان شہریوں کے ملوث ہونے پر تشویش کا اظہار بھی کیا تھا۔

بعد ازاں افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کے امیر ملا ہبت اللہ اخوند نے پانچ دن قبل جمعے کو قندھار میں نمازِ جمعے کے خطبے کے دوران کہا کہ امارت اسلامی افغانستان کسی بھی طور پر کسی بھی دوسرے اسلامی ملک کے خلاف جہاد کی اجازت نہیں دے سکتی۔

ہفتے کو طالبان کی عبوری حکومت کے وزیرِ دفاع ملا یعقوب نے کہا تھا کہ طالبان کے سپریم لیڈر نے جہاد ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ ان کے فرمان کی اطاعت سب کے لیے لازم ہے۔

'طالبان کا 18 پاکستانی شہریوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ '

ذبیح اللہ مجاہد نے بدھ کو اپنے بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان میں مختلف کارروائیوں کے دوران داعش کے 18 ایسے ارکان ہلاک ہوئے ہیں جو پاکستانی شہری تھے اور وہ مختلف حملوں اور بم دھماکوں میں ملوث تھے۔

طالبان ترجمان نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ افغانستان کے مختلف علاقوں سے درجنوں افراد کو بھی گرفتار کیا گیا ہے جس کے تمام تر ثبوت اور شواہد موجود ہیں۔ لیکن اس کے لیے پاکستان کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا بلکہ افغان حکومت نے حفاظتی انتظامات بہتر کیے ہیں جس کے نتائج سامنے ہیں۔

SEE ALSO: طالبان کی افغانستان سے باہر ’جہاد‘ کی مخالفت؛ کیا ٹی ٹی پی اس اعلان پر عمل کرے گی؟

انہوں نے افغانستان اور پاکستان کی جانب سے مشترکہ کوششوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ الزام تراشی مسائل کا حل نہیں ہے۔

ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ طالبان حکومت پاکستان میں کسی قسم کے حملے کی حمایت نہیں کرتی اور نہ کسی کو اس بات کی اجازت دی جا سکتی کہ افغانستان کی سر زمین پاکستان کے خلاف استعمال کرے۔

انہوں نے کہا " پاکستان کے اندر حملوں کی روک تھام ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ بلکہ یہ پاکستان کے انٹیلی جنس اور سیکیورٹی اداروں کی ذمہ داری ہے جس کے لیے پاکستان اپنے بجٹ کا بڑا حصہ صرف کرتا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ پاکستانی انٹیلی جنس ادارے اپنے لوگوں اور عالمی توجہ ہٹانے کے لیے افغانستان پر الزامات عائد نہ کریں۔

ان کے اس بیان پر پاکستان کی جانب سے فی الوقت کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

’طالبان کی مجبوریاں‘

تجزیہ کار اور سینئر افغان صحافی سمیع یوسفزئی کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ ذمے داری کا مظاہرہ پاکستان کو کرنا ہوگا کیوں کہ افغانستان میں برسر اقتدار طالبان کی بہت سی مجبوریاں ہیں۔ان کے بقول افغان طالبان اب اس طرح پاکستان کے قابو میں نہیں ہیں جیسے ماضی قریب میں تھے۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے شمیم شاہد سے گفتگو کرتے ہوئے سمیع یوسفزئی نے کہا کہ جس طرح ماضی قریب میں سابق صدر حامد کرزئی اور ڈاکٹر اشرف غنی پاکستان سے افغان طالبان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اسی طرح اب پاکستان افغان طالبان سے پاکستانی طالبان کے خلاف مطالبہ کر رہے ہیں۔

SEE ALSO: افغان سرحد پر باڑ اکھاڑنے کے واقعات: 'ملا عمر نے بھی ڈیورنڈ لائن پر صاف جواب دے دیا تھا'

ان کے مطابق جس طرح افغان طالبان کا پاکستان پر انحصار کم ہوا ہے، اسی طرح ٹی ٹی پی بھی افغانستان میں قائم ہونے والی حکومت کے رحم و کرم پر نہیں۔ بلکہ ان کے بقول، ٹی ٹی پی افغان طالبان کے قابو سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔

پشاور یونیورسٹی کے ایریا سٹڈی کے سابق ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر سرفراز خان کہتے ہیں کہ پچھلی کئی دہائیوں سے طالبان سمیت کئی سیاسی قوتیں پاکستان میں عدم استحکام کے لیے سرگرم ہیں۔

ان کے مطابق اب جب کہ ایک بار پاکستان میں عام انتخابات کے لیے تیاریاں ہورہی ہیں تو یہی قوتیں نہ صرف عدم استحکام چاہتی ہیں بلکہ ان کی کوشش ہے کہ انتخابات میں طالبان مخالف قوتوں کو ناکام بنائیں۔

’ پالیسیاں تبدیل کرنا ہوں گی‘

افغانستان کے سیاسی تجزیہ کار اور کالم نویس عبدالوحید خان نے یاد دلایا کہ ہر مشکل وقت میں تعاون کے باوجود طالبان جب اقتدار میں آتے ہیں تو وہ کبھی بھی پاکستان کی ہر بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

عبدالوحید خان کا کہنا ہے کہ جب تک اسلام آباد اور کابل کے درمیان بداعتمادی ختم نہیں ہو گی دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ محاذ آرائی اور ہٹ دھرمی پر مبنی پالیسیوں کو اب تبدیل کردیں۔

پشاور کے سینئر صحافی اسماعیل خان نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ بیان بازی اور الزام تراشی کے باوجود کابل اور اسلام آباد کے درمیان رابطے جاری ہیں۔

SEE ALSO: پاکستان کے 'بے بنیاد' الزامات مسترد کرتے ہیں: افغان طالبان

تاہم ان کا کہنا تھا کہ جب بھی پاکستان میں دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے تو اس پر عوامی اور سیاسی ردِ عمل اتنا زیادہ ہوتا ہے جس سے مسئلہ خراب ہوجاتا ہے۔

لندن میں مقیم افغان صحافی سمیع یوسفزئی نے اسماعیل خان کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ جب مولانا فضل الرحمن، بلاول بھٹو زرداری اور دیگر اہم ذمے دار افراد عام لوگوں کی طرح افغانستان اور طالبان پر الزامات لگاتے ہیں تو پھر دونوں ممالک کے درمیان مسائل مزید الجھ جاتے ہیں۔

سمیع یوسفزئی نے یاد دلایا کہ پاکستان کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ افغانستان میں برسر اقتدار ہر حکمران یا طبقہ ان کی بات مانے مگر کابل کے مسند اقتدار پر براجمان افراد کے لیے ایسا ممکن نہیں۔

اسماعیل خان کا کہنا ہے پاکستان کو برداشت کا مظاہرہ کرکے نہایت تدبر کے ساتھ افغانستان کے ساتھ معاملات کو راہ راست پر لانے کی ضرورت ہے۔دونوں فریق حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے سنجیدگی کا مظاہرہ کریں اور آپس میں مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالیں۔