رسائی کے لنکس

'نئی حلقہ بندیوں کے لیے وقت درکار ہوا تو نیا تنازع کھڑا ہوسکتا ہے'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کی ساتویں مردم شماری کے نتائج سامنے آنے کے بعد اس کے تکنیکی اور آبادی سے متعلق حقائق کے بجائے سیاسی پہلوؤں پر بحث جاری ہے۔

بعض ماہرین کے بقول مشترکہ مفادات کونسل سے ملکی تاریخ کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کی باقاعدہ منظوری کے بعد، اکتوبر یا نومبر میں ہونے والے عام انتخابات میں تاخیر کے بارے میں خدشات اب حقیقت میں تبدیل ہوتے نظر آرہے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ فیڈریشن اور اس کی تمام اکائیوں کی جانب سے مردم شماری کے نتائج کی منظوری سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ آئین میں طے شدہ مقررہ وقت یعنی اسمبلیوں کی تحلیل کے 90 دنوں میں انتخابات نہیں ہوں گے۔

صرف چند روز قبل تک خود حکومتی نمائندوں کا کہنا تھا کہ آئندہ انتخابات سال 2017 کی مردم شماری کے تحت ہوں گے۔ لیکن اب الیکشن کمیشن کو قانون کے تحت نئی مردم شماری کے مطابق نئی حلقہ بندیاں کرنا ہوں گی جس میں تین ماہ سے زیادہ وقت درکار ہوگا۔

ماہرین کا خیال ہے کہ قومی اورصوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کی تعداد میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی کیوں کہ اس کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے، ایسے میں آئندہ چند روز میں قومی اسمبلی کی مدت ختم ہوچکی ہوگی۔

عام انتخابات تاخیر کا شکار ہونا یقینی؟

صحافی و تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ مردم شماری کے نتائج پر بحث سیاسی ماحول میں گھری ہوئی جو کہ بڑی بدقسمتی ہے کیوں کہ مردم شماری کے تکنیکی پہلوؤں کو یکسر نظر انداز کیا جارہا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے مظہر عباس نے کہا کہ اب یہ الیکشن کمیشن پر منحصر ہے کہ وہ نئی حلقہ بندیوں کا عمل کب مکمل کرتا ہے۔اگر انتخابات میں تاخیر کی جاتی ہے تو ان کے خیال میں ایسی صورت میں سپریم کورٹ کا کردار بھی اہم ہوگا اور ایسا لگتا ہے کہ عدالت اس میں بہت زیادہ تاخیر کی اجازت نہیں دے گی۔

وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ کہہ چکے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 51 کے تحت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات الیکشن کمیشن کی شائع کردہ حلقہ بندیوں کی حدود کے مطابق کرائے جائیں گے اور آئندہ انتخابات میں قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں میں صوبوں کا حصہ تبدیل نہیں ہوگا۔

ان کے بقول، الیکشن کمیشن کو حد بندی کا عمل 120 دن تک مکمل کرنا ہے اور یہ کمیشن کا اختیار ہے کہ وہ مشترکہ مفادات کونسل کی جانب سے مردم شماری کے نتائج جاری کرنے کے بعد کتنی جلدی اس عمل کو شروع کرتے ہیں۔

'حالیہ صورتِ حال میں ایک نیا تنازع کھڑا ہوسکتا ہے'

سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کی جانب سے مردم شماری کے نتائج جاری کرنے کے نتیجے میں حلقہ بندیوں کے لیے چار سے چھ ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ اس کے لیے قومی اسمبلی کی 272 نشستوں کے علاوہ صوبائی اسمبلیوں کی 593 نشستوں کی ازسرِ نو حلقہ بندیاں کرنا ہوں گی ۔ پھر ان پر الیکشن کمیشن کو اپیلوں کی سماعت اور ان کے فیصلے بھی جاری کرنا ہوں گے جس کے بعد ہی انتخابی شیڈول جاری ہوسکے گا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے لیے آئین کے آرٹیکل 224 اے اور آرٹیکل 48 کے تحت 90 روز میں انتخابات منعقد کرانا ممکن نہیں رہا۔ یہ آئینی دفعات کمیشن کو اسمبلیوں کی تحلیل کے 90 روز کے اندر انتخابات کرانے کا پابند کرتی ہیں۔

وزیرِ اعظم شہباز شریف اعلان کر چکے ہیں کہ نو اگست کو قومی اسمبلی تحلیل کر دی جائے گی۔

انتخابات میں اتحاد برقرار نہ رکھا تو حاصل کردہ فوائد ضائع ہو جائیں گے: خورشید شاہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:06:09 0:00

کنور دلشاد کہتے ہیں اسمبلی کی تحلیل کے بعد اگر صدرِ مملکت نے آئندہ انتخابات کی تاریخ دے دی اور وہ یقینا اسمبلی کی تحلیل کے تین ماہ کے اندر ہی کی ہوگی اور دوسری جانب کمیشن کو نئی حلقہ بندیوں کے لیے مزید وقت درکار ہوگا تو ایسے میں ایک نیا تنازع کھڑا ہوسکتا ہے۔

آئین کے آرٹیکل 254 کے تحت الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ میں رد و بدل کرسکتا تھا لیکن سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے نے کمیشن کو ایسا کرنے سے بھی روک دیا ہے اور کنور دلشاد کے خیال میں کمیشن انتخابات کی تاریخ میں کوئی ردو بدل کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔

وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ کہہ چکے ہیں کہ نئی حلقہ بندیوں کے لیے 120 دن کی زیادہ سے زیادہ حد کو فوری اور تیز کام کرکے کم بھی کیا جا سکتا ہے۔ یوں عام انتخابات کے انعقاد کے لیے مزید 54 دن درکار ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG