کیا کیلی فورنیا میں لاک ڈاؤن ختم ہو رہا ہے؟

  • مدثرہ منظر

امریکہ میں کئی ریاستوں میں کاروبار گزشتہ ہفتے سے ہی کھلنا شروع ہو گئے تھے اور جن ریاستوں کے گورنر اس بارے میں کوئی اعلان نہیں کر رہے تھے وہاں لوگوں میں بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔ ان میں کیلی فورنیا کے گورنر گیون نیوسم بھی شامل تھے۔ ان پر بعض کاؤنٹیز کی طرف سے بہت دباؤ تھا کہ وہ ریاست میں لاک ڈاؤن میں نرمی کا اعلان کریں۔

Your browser doesn’t support HTML5

کیلی فورنیا میں لاک ڈان ختم ہورہا ہے؟

کیلیفورنیا کی اورنج کاؤنٹی نے تو اپنے طور پر ساحلی تفریح گاہ کھول بھی دی مگر گورنر نے وہاں سوشل ڈسٹینسنگ پر عمل نہ کرنے پر اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے بیچ کو دوبارہ بند کر دیا۔

اس پر احتجاج کرتے ہوئے کاؤنٹی کے لوگوں نے گورنر کے خلاف عدالت میں جانے کا فیصلہ کر لیا۔

ڈاکٹر آصف محمود ریاست کے ہیلتھ بورڈ کے رکن ہیں انہوں نے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کیلیفورنیا میں سیاسی طور پر بہت تقسیم پائی جاتی ہے اس لئے جذبات میں شدت بھی ہے۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ آخری حکم گورنر کا ہی ہوتا ہے اور وہ جب چاہے ریاست کو بند کر سکتا ہے۔

کیلیفورنیا وہ ریاست ہے جہاں کرونا وائرس کے مریض تیزی سے سامنے آنے پر امریکہ میں سب سے پہلے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر آصف محمود کہتے ہیں اس کی وجہ سے ریاست میں کووڈ 19 کو پھیلنے سے روکنے میں مدد ملی۔

وہ کہتے ہیں کیلیفورنیا میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے والوں اور اموات کی تعداد کو دیکھیں تو یہ نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا کے لحاظ سے بھی بہتر رہی ہے اور گورنر نیوسم یہی چاہتے ہیں کہ جلدی میں کیا ہوا کوئی فیصلہ اس صورتِ حال کو خراب نہ کر دے۔

کیلفورنیا میں بیشتر کاروبار اس ہفتے کے آخر تک کھل جائیں گے۔ ان میں کپڑے کے سٹور، کتابوں اور پھولوں کی اور کھیلوں کے سامان کی دکانیں بھی شامل ہیں۔ ریٹیل کے دیگر سٹور اور انکے مینوفیکچررز بھی اپنا کام شروع کر دیں گے مگر گورنر نیوسم کی ہدایت ہے کہ لوگ اپنا معاشرتی فاصلہ برقرار رکھیں اور دوکان کے باہر سے اپنا سامان حاصل کریں جسے یہاں کرب سائیڈ پک اپ کہا جاتا ہے۔

گورنر نے یہ بھی کہا کہ کاؤنٹیز اپنی صوابدید پر اپنے ہاں ریستوران اور دیگر کاروبار کھولنے کا فیصلہ کر سکتی ہیں لیکن اگر معاشرتی فاصلے اور دیگر احتیاطی تدابیر کی خلاف ورزی کی گئی اور اس کے نتیجے میں کووڈ 19 کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تو پھر یہ فیصلہ تبدیل کرنا پڑے گا۔

کیلیفورنیا کے ہیلتھ بورڈ کے رکن ڈاکٹر آصف محمود کہتے ہیں کہ یہ سب اس لئے ممکن ہوا، کیونکہ کیلیفورنیا میں جو آبادی کے لحاظ سے امریکہ کی سب سے بڑی ریاست ہے، لوگوں کے کرونا وائرس کے ٹیسٹ بہت بڑی تعداد میں کئے گئے، ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد میں کمی ہوئی، ذاتی حفاظت کے سامان کی فراہمی بہتر ہوئی اور یہ اطمینان کیا گیا کہ لوگ اس وائرس سے محفوظ رہیں۔

حال ہی میں ایف ڈی اے نے ایک دوا کو کووڈ 19کے مریضوں کے علاج کیلئے استعمال کرنے کی منظوری دی ہے ۔ ڈاکٹر آصف کہتے ہیں کہ رامیڈزوئیر نامی یہ دوا صرف انتہائی بیمار لوگوں کو دی جا رہی ہے۔ اور یہ بھی کوئی سو فیصد علاج نہیں ہے۔ البتہ اس سے کووڈ 19کے مریض کے صحتیاب ہونے کا عرصہ کم ہو جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ دوا امریکہ کے علاوہ یورپ کے بعض ممالک میں بھی دستیاب ہے۔

ریاست کیلیفورنیا میں کاروبار دوبارہ کھولنے کی حکمت عملی کا سب سے اہم نکتہ نئے مریضوں اور ان سے رابطے میں آنے والوں پر مسلسل نظر رکھنا ہے اور اس کے لئے بیس ہزار لوگ تعینات کئے گئے ہیں۔ پیر کی رات تک کیلیفورنیا میں کرونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 2276 تھی اور 55883 لوگ اس وائرس سے متاثر ہوئے تھے۔