لاک ڈاؤن نے 75 فی صد نوجوانوں کو ذہنی دباؤ میں مبتلا کر دیا، سروے رپورٹ

تاجک طالب علم

رائے عامہ کے ایک حالیہ جائزے سے پتا چلا ہے کہ کرونا وائرس کے باعث اپنے گھروں میں بند نوجوانوں کی ایک چوتھائی تعداد پریشان اور متفکر ہے اور وہ یہ سوچتے ہیں کہ حالات کب معمول پر آئیں گے۔

برطانیہ کی رائل سوسائٹی فار پبلک ہیلتھ یعنی آر ایس پی ایچ کے تحت کرائے گئے ایک سروے سے ظاہر ہوا ہے کہ 18 سے 24 سال کے نوجوان لاک ڈاؤن اور قرنطینہ کی صورت حال سے معمر افراد کی نسبت زیادہ پریشان ہیں جن کی عمریں 75 سال سے زیادہ ہیں۔ معمر افراد میں کرونا وائرس سے پریشانی کی شرح 47 فی صد ہے۔

مجموعی طور پر اس عالمی وبا کے دوران معمر افراد کی نسبت نوجوانوں میں ذہنی صحت کے مسائل زیادہ پیدا ہو رہے ہیں۔ سروے میں اکثر نوجوانوں کا کہنا تھا کہ گھر میں بند رہنے سے ان کی پریشانی میں اضافہ ہوا ہے، ان کا موڈ خراب رہنے لگا ہے، اور وہ ذہنی لحاظ سے خود کو اچھا محسوس نہیں کرتے۔

62 فی صد نوجوانوں کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کے دوران وہ خود کو زیادہ تنہا محسوس کرتے ہیں اور تنہائی کا احساس انہیں اکثر پریشان کرتا ہے، جب کہ 65 سے 74 برس کی عمر کے گروپ میں سے صرف 21 فی صد نے یہ کہا وہ اس قرنطینہ میں وہ خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں۔

آر ایس پی ایچ کی سروے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 25 برس سے کم عمر کے نوجوان اس وجہ سے زیادہ پریشان ہیں کہ جن شعبوں سے وہ منسلک تھے، مثلاً تعلیم، عالمی وبا کے باعث ان کے ادارے بند کر دیے گئے ہیں۔ گھر میں بند رہ کر انہیں پریشانی ہوتی ہے اور یہ سوچ کر ان کی پریشانی مزید بڑھ جاتی ہے کہ یہ صورت حال غیر معینہ مدت تک قائم رہ سکتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ صورت حال ان کی صحت کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔

برطانیہ کی صحت عامہ کی سوسائٹی نے دماغی صحت کے ہفتے کے حوالے سے اس سروے کا انقاد کیا ہے۔ برطانیہ میں دماغی صحت کا ہفتہ 18 سے 24 مئی تک منایا جا رہا ہے۔ جب کہ امریکہ میں 4 سے 10 اکتوبر تک اس ہفتے کی تقریبات اور سرگرمیوں کا انعقاد کیا جائے گا۔

آر ایس پی ایچ کی چیف ایکزیکٹو شرلی کرامر نے لاک ڈاؤن اور قرنطینہ کی پابندیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ چیزیں ہم سب کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہیں۔ لیکن، ہمیں سب سے زیادہ فکر نوجوانوں کی ہے، کیونکہ وہ پابندیوں کی اس کیفیت کے بارے میں بہت حساس ہیں اور ان کی دماغی صحت اور مزاج پر اس کے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم نوجوانوں کے ذہنوں پر لاک ڈاؤن سے مرتب ہونے والے منفی اثرات سے انہیں بچانا چاہتے ہیں، تو ہمیں نوجوانوں کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنی چاہیئے جو اس منفرد صورت حال سے گزر رہے ہیں۔

یہ سروے 31 مارچ سے 8 اپریل کے دوران کیا گیا تھا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ 18 سے 24 سال کے نوجوانوں میں سے 58 فی صد افراد لاک ڈاؤن کے دوران برطانوی حکومت کے اقدامات سے مطمئن نہیں تھے اور ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو نوجوانوں کی دماغی صحت اور پریشانی کے ازالے کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

38 فی صد نوجوانوں کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان کی نیند خراب ہوئی ہے اور وہ اچھی طرح سو نہیں سکتے؛ جب کہ 75 سال سے زیادہ عمر کے گروپ میں نیند کی شکایت 15 فی صد لوگوں نے کی۔

سروے کے مطابق 18 سے 24 سال کے ایج گروپ میں سے 16 فی صد نے کہا کہ انہیں مالی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جب کہ 55 سے 64 سال کے ایج گروپ میں یہ شکایت 11 فی صد لوگوں کو تھی۔

انگلینڈ اور ویلز کی دماغی صحت کی فاؤنڈیشن کے صدر ڈاکٹر انٹونس کوسولس کا کہنا تھا کہ اگرچہ یہ صورت حال پریشان کن ہے، لیکن حیران کن نہیں ہے کہ عالمی وبا کے باعث کیے گئے لاک ڈاؤن نے نوجوانوں کی دماغی صحت پر منفی اثر ڈالا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن سے سبب نوجوانوں کی تعلیم، تعلقات، دوستیوں اور سماجی سرگرمیوں میں بری طرح خلل پڑا ہے اور معیشت اور ملازمتوں کے حالات ان کے ذہنی تناؤ میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔