گیارہ سالہ حماد نے روتے ہوئے بتایا کہ ’’ وہ محض موبائل فون ر کھنے کی بنا پر میرے والد کو لے گئے‘‘۔
ایک پناہ گزین کیمپ کے نسبتاً خاموش کونے پر واقع ایک خیمے کے سامنے کئی لوگ چپ چاپ کھڑے تھے اور انہیں معلوم تھا کہ اس گھرانے کی کیا کہانی ہے۔ اس کیمپ میں ہر شخص کی ایک کہانی تھی۔
داعش کے مسلح افراد نے حماد کے والد کو اس لیے پکڑا تھا کیونکہ ان کے پاس موبائل فون تھا جو داعش کی نظر میں ایک بڑا جرم تھا ۔ وہ اس کے ذریعے فوج کو داعش کی سرگرمیوں کی اطلاع دے سکتا تھا۔
اپنے خیمے میں بچی کی ماں ام حماد نے وائس آف امریکہ کو اپنے شوہر کے اغوا اور موصل سے اپنے اور بچوں کے فرار کی کہانی سنائی۔
ام حماد نے بتایا کہ وہ گرمیوں کی ایک گرم رات تھی۔ ہم اپنے گھر کی چھت پر سوئے ہوئے تھے۔ آدھی رات کو کچھ لوگ دیوار پھلانگ کر ہمارے مکان کی چھت پر چڑھ آئے۔ ان کے پاس پستول، اے کے 47 بندوقیں اور دوسرے ہتھیار تھے۔
چھت پر چڑھنے والے مسلح افراد کی تعداد چار تھی۔ لیکن مجھے معلوم تھا کہ کئی جنگجو نیچے کھڑے ہوئے ہیں۔ ایک جنگجو نے میری ساڑھے چار سالہ بیٹی کو دبوچا اور اس کے سر پر پستول رکھ کر پوچھا کہ تمہارا باپ کہاں ہے۔
دوسرے شخص نے میرے بڑے بیٹے کو، جس کی عمر 12 سال تھی، اٹھا کر چھت سے نیچے پھینک دیا۔
اسی دوران ان کی نظر میرے شوہر احمد پر پڑی۔ انہوں نے اس کے ہاتھوں کو باندھا اور دھکیلتے ہوئے سیڑھیوں کی جانب لے گئے۔
میرے شوہر کا نام احمد نہیں ہے۔ میں یہ نام اس کی شناخت پوشیدہ رکھنے کے لیے استعمال کررہی ہوں ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ زندہ ہو ۔ ہو سکتا ہے کہ نام ظاہر نہ کرنے سے اس کا جان بچ سکتی ہو۔
چونکہ وہ آدھی رات کا وقت تھا اس لیے میں نے نقاب نہیں پہنا ہوا تھا، لیکن اپنے سر کو ایک کپڑے سے ڈھانپا ہوا تھا۔ ایک شخص نے میرے بال کھینچتے ہوئے نفرت سے کہا کہ تم اس آدمي کے ساتھ سوتی ہو۔ یہ غدار اور نمک حرام ہے۔
اسلامک اسٹیٹ یعنی داعش کے جنگجوؤں نے موبائل فون رکھنے کی ممانعت کی ہوئی تھی ۔ انہیں پتا چل گیا تھا کہ ہمارے پاس ایک موبائل فون ہے۔ ان کا خیال تھا کہ احمد اپنے موبائل فون کے ذریعے اپنے بھائی سے رابطے میں ہے جو عراقی فوج میں ملازم تھا۔ انہیں شک تھا کہ احمد موبائل فون کے ذریعے فوج کو معلومات فراہم کر رہا ہے ۔
ایک جہادی نے چلا کر کہا کہ جب تم عراقی فوج میں اپنے رشتے داروں کے پاس جاؤ گی تو انہیں بتانا کہ ہم ان کا سر کاٹنے آ رہے ہیں۔
ایک اور شخص نے میرے بچوں کو دبوچ لیا۔ میں نے انہیں چھڑانے کے لیے اسے دھکا دیا اور اس کے بازو پر کاٹا۔ اس نے زور سے میرے پیٹ پر لات ماری۔ میں اس وقت ڈیڑھ مہینے کے حمل سے تھی۔ میرا بچہ ضائع ہوگیا۔
چھت پر سے میں اور میرے بچے یہ دیکھ رہے تھے کہ وہ میرے شوہر احمد کو مار تے پیٹتے اور گھسییٹتے ہوئے لے جا رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ اس کی ناک سے خون بہہ رہا تھا اور وہ گرتا پڑتا اس طرح چل رہا تھا جیسے مرنے کے قریب ہو۔ وہ آہ و پکار کررہا تھا۔ چھت پر کھڑا ہوا ایک جنگجو چلا کر بولا۔ اسے بتا دو کہ چپ ہو جائے۔ اگر وہ چپ نہ ہوا تو میرے پاس اسے گولی مارنے کا اختیار ہے۔
وہ میرے شوہر کو مارتے پیٹتے ہوئے اپنے ساتھ لے گئے۔ میں نے اور میرے تمام چھ بچوں نے یہ درد بھرا منظر اپنے مکان کی چھت پر سے دیکھا۔ لیکن ہم کچھ نہیں کرسکتے تھے۔
جاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دوپہر تک اپنے گھر کا دروازہ نہ کھولنا۔ اپنے شوہر کو تلاش بھی نہ کرنا ورنہ ہم تمہیں بھی پکڑ لیں گے۔
پھر کوئی ایک ہفتے کے بعد جب داعش کے عسکریت پسندوں کا ہمارے علاقے میں آنا جانا کم ہوا تو ایک رات میں نے بچوں کو ساتھ لیا اور چھپتے چھپاتے ہوئے گھر سے نکلی اور قبرستان کے راستے ہوتی ہوئی موصل کے دوسرے حصے میں چلی گئی۔ لیکن ہم وہاں بھی محفوظ نہیں تھے۔
ایک دن میرے ہمسائے نے خبر دی کہ وہ تمہارے بیٹے کو پکڑ نے کے لیے آ رہے ہیں۔
ہم وہاں سے بھاگ کر موصل کے ایک اور حصے میں چلے گئے۔ اگرچہ وہاں بھی داعش کا کنڑول تھا لیکن وہاں پکڑے جانے کا خطرہ نہیں تھا۔ ہم اپنے جن رشتے داروں کے پاس ٹہرے ہوئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ہمیں کھانے کے لیے کچھ نہیں دے سکتے کیونکہ وہ بے روزگار ہیں اور خود ان کے پاس اپنے لیے کچھ نہیں ہے۔
میرے شوہر کے رشتے دار کچھ عرصہ پہلے موصل سے بھاگ کر ایک محفوظ علاقے میں چلے گئے تھے۔ میں بھی ان کے پاس جانا چاہتی تھی۔ مجھے وہاں سے نکلنے کے لیے دو مہینے تک انتظار کرنا پڑا۔ جب ایک قریبی علاقے پر عراقی فوج نے قبضہ کیا تو میں اپنے بچوں کے ساتھ چھپتے چھپاتے نکلی اور اس کیمپ تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئی۔
میرے شوہر کے رشتے دار کسی دوسرے کیمپ میں ہیں، میں ابھی وہاں نہیں جا سکتی۔ کیونکہ میرے پاس سوائے ان کپڑوں کے جو ہم نے پہن رکھے ہیں کچھ بھی نہیں ہے۔ داعش والے میرے شوہر کو لے جاتے وقت سب کچھ چھین کر لے گئے تھے۔
یہ ایک محفوظ کیمپ ہے ۔ لیکن پھر بھی میں خوف کے مارے سو نہیں سکتی۔ مجھے اپنے شوہر کی فکر ہے۔ پتا نہیں ہم کبھی اس سے مل بھی سکیں گے یا نہیں اور کون جانے کہ وہ زندہ ہے بھی یا نہیں۔ مجھے یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ میں اکیلی عورت اپنے چھ بچوں کو کس طرح پال سکوں گی۔