|
نئی دہلی -- ہمیں گزشتہ چند روز سے شہریار کی ایک غزل کا ایک شعر ذرا سی تحریف کے ساتھ شدت سے یاد آ رہا ہے۔ وہ شعر ہے: ’سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے، اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے۔ ‘ہم نے سینے اور آنکھوں کو ایک دوسرے سے بدل دیا ہے۔ یعنی آنکھوں میں جلن سینے میں طوفان سا کیوں ہے؟
دراصل اس وقت دہلی شہر کا ہر شخص اپنی آنکھوں میں جلن اور دل کی دھڑکنوں میں ابتری محسوس کر رہا ہے۔ اس کو سانس لینے میں دشواری پیش آ رہی ہے اور اسپتالوں میں فضائی آلودگی سے ہونے والے امراض کے شکار مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
جمعرات یعنی 31 اکتوبر کو ہندوؤں کا تہوار دیوالی تھا۔ یہ تہوار ہندو مذہب کے ایک پیشوا رام چندر کے 14 سال کا بن باس کاٹ کر ایودھیا لوٹنے کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔ اس دن ایودھیا میں چراغاں کیا گیا تھا۔ لہٰذا دیوالی پر چراغاں کیا جاتا ہے۔
پٹاخے پھوڑنے کا سلسلہ بھی دیوالی سے چند روز قبل ہی شروع ہو جاتا ہے اور دیوالی کی رات تو ایسی پٹاخہ بازی ہوتی ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔
ہم دیوالی کی اگلی صبح ایک ضروری کام سے باہر نکلے۔ ہماری رہائش مسلم اکثریتی علاقے جامعہ نگر میں ہے۔ یہاں بھی سڑکوں پر بڑی مقدار میں پٹاخوں کے فضلات اور فضا میں بارود کی بو سے سابقہ پڑا۔
لیکن جب ہم غیر مسلموں کی ایک کالونی سے گزرے تو سیاہ سڑک نظر نہیں آئی۔ اس پر پٹاخوں کے رنگ برنگے فضلات کی ایک پرت بچھی ہوئی تھی اور فضا میں بارود کی بو اس قدر رچی بسی تھی کہ سانس لینا انتہائی دشوار ہو رہا تھا۔
ہم تقریباً ایک گھنٹہ باہر رہے اور اس دوران آنکھوں میں جلن سے پریشان ہوتے رہے۔ جب گھر آکر آنکھوں پر پانی کے چھپاکے مارے تب کہیں جا کر جلن کچھ کم ہوئی۔ ایک ڈاکٹر نے ہمیں بتایا تھا کہ ٹھنڈے پانی سے آنکھوں کی جلن کم ہو جاتی ہے۔ ہم نے تجربہ کیا جو کامیاب رہا۔
ہم نے شہر میں کئی مقامات پر ’اینٹی اسموگ گن‘ دیکھیں جن سے پولیوشن پر قابو پانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ شہر میں 200 اینٹی اسموگ گن نصب کی گئی ہیں۔
عام دنوں میں مارننگ واک کرنے اور پارکوں میں ورزش کرنے والوں کی خاصی تعداد ہوتی ہے۔ لیکن چند روز سے اس تعداد میں کمی ہو گئی ہے۔ دراصل پارک میں جانے والے اس اندیشے میں مبتلا ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آکسیجن کے بجائے بارود کی بو پھیپھڑوں میں بھر جائے۔
چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ کا ایک بیان وائرل ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ پولیوشن میں خطرناک حد تک اضافے کی وجہ سے انھوں نے مارننگ واک پر جانا بند کر دیا ہے۔
مساجد میں فجر کے وقت نمازیوں کی تعداد بھی کم ہو گئی ہے۔ دراصل صبح کے وقت بھی فضاؤں پر دھند چھائی رہتی اور گرد و غبار میں اضافے کی وجہ سے آلودگی کی سطح بڑھی رہتی ہے۔
آج کل دہلی میں طلوعِ آفتاب کا وقت چھ بج کر 37 منٹ ہے۔ لیکن سات ساڑھے سات بجے تک ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی تک سورج نہیں نکلا ہے۔
دہلی میں آلودگی میں اضافے اور ہوا کے خراب معیار کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ پیر کی صبح کو آنند و ہار علاقے میں ’ایئر کوالٹی انڈیکس‘ (اے کیو آئی) 627 تک پہنچ گیا۔ سب سے کم 268 آر کے پورم میں پایا گیا۔ یہ اطلاع ایک ویب سائٹ آئی کیو سی این نے دی ہے۔
واضح رہے کہ صفر سے پچاس تک کے اے کیو آئی کو اچھا اور اطمینان بخش، 51 سے 100 تک کو قابلِ قبول،101 سے 150 تک غیر صحت بخش، 151 سے 200 تک کو حساس طبیعت والوں کے لیے نقصان دہ، 200 سے 300 تک کو بہت خراب، 301 سے 400 تک کو خطرناک اور اس سے اوپر کو انتہائی خطرناک مانا گیا ہے۔
صحت کے عالمی ادارے ’ڈبلیو ایچ او‘ نے آلودگی کی جس سطح کو خطرناک حد قرار دیا ہے، دہلی میں آلودگی کی سطح اس سے 59 گنا زیادہ بڑھ گئی ہے۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ یہ انکشاف ’اے کیو ایئر ویب سائٹ‘ نے کیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دیوالی کے بعد سے آنکھوں کی جلن میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ لوگ اپنے گھروں میں وینٹی لیشن کا اہتمام کریں۔ یعنی دروازے، کھڑکیاں اور پردے کھول کے رکھیں۔
لیکن ہمارے ایک دوست اور سینئر صحافی ایم ودود ساجد نے دیوالی کی رات سے ہی اپنے فلیٹ کو اندر سے بند کر رکھا ہے۔ انھیں ڈر ہے کہ اگر انھوں نے کوئی کھڑکی کھولی تو باہر کی ساری خراب ہوا مع بارود کی بو، گھر میں آجائے گی۔ یہ صرف ان کا مسئلہ نہیں ہے۔ بیش تر لوگ گھروں میں قید ہو گئے ہیں۔
مسلم اکثریتی علاقے جامع مسجد کے ایک رہائشی اور ہمارے بزرگ دوست 83 سالہ مودود صدیقی بیمار پڑ گئے۔ اسپتال میں ایڈمٹ ہونے کی نوبت آگئی۔
دہلی میں ہر سال کی یہی کہانی ہے۔ موسمِ سرما کی آمد پر فضاؤں میں دھند چھا جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ رطوبت کی وجہ سے وہ باریک اجزا جن سے پولیوشن میں اضافہ ہوتا ہے، حرکت نہیں کر پاتے وہ ایک جگہ جم جاتے ہیں جس سے فضائی صورت حال متاثر ہوتی ہے۔
پولیوشن میں اضافے کی دوسری وجوہات بھی ہیں۔ دہلی کی سرحد ہریانہ اور اترپردیش سے ملتی ہے۔ اسی سیزن میں اترپردیش، ہریانہ اور پنجاب میں فصلوں کی باقیات کو جنھیں پرالی بھی کہا جاتا ہے، جلایا جاتا ہے۔
ایک تخمینے کے مطابق سالانہ ساڑھے تین کروڑ ٹن پرالی جلائی جاتی ہے۔ جب ہوائیں چلتی ہیں تو وہ ہریانہ، پنجاب اور اترپردیش سے اٹھنے والا دھواں اور گرد و غبار اڑا کر دہلی میں لے آتی ہیں جس کی وجہ سے ہوا کا معیار خراب ہو جاتا ہے۔
دہلی میں ٹریفک کی بدترین صورتِ حال بھی ایک وجہ ہے۔ گاڑیوں کا دھواں فضا کو خراب کرتا ہے۔ دہلی کے اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ کی ایک رپورٹ کہتی ہے کہ دہلی میں 31 مارچ 2023 تک گاڑیوں کی تعداد 79 لاکھ 50 ہزار تھی جن میں پرائیویٹ کاروں کی تعداد 20 لاکھ 70 ہزار ہے۔ تقریباً پونے چار لاکھ کاریں اور سوا لاکھ ٹو وہیلر دہلی میں یومیہ داخل ہوتے ہیں۔
دہلی میں پولیوشن کی ایک وجہ ضرورت سے زیادہ آبادی بھی ہے جس کی وجہ سے ایئر پولیوشن اور نوائز پولیوشن میں اضافہ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت دہلی کی مجموعی آبادی لگ بھگ تین کروڑ 38 لاکھ ہے۔
مکانات اور سڑکوں کی تعمیر اور صنعتوں سے نکلنے والا دھواں اور بڑی مقدار میں پیدا ہونے والا کوڑا کرکٹ بھی آلودگی کی وجوہات میں شامل ہیں۔
موسمِ سرما کے آغاز پر فضائی آلودگی بڑھنی شروع ہو جاتی ہے۔ اسی موقع پر دیوالی کا تہوار بھی آتا ہے۔
شہریار کی مذکورہ غزل میں ایک شعر یوں ہے: 'دل ہے تو دھڑکنے کا بہانہ کوئی ڈھونڈے، پتھر کی طرح بے حس و بے جان سا کیوں ہے۔"
لیکن اہالیانِ دہلی کے دلوں کو دھڑکنے کا بہانہ ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ پولیوشن کی وجہ سے پھیپھڑوں پر جو منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ تو ہوتے ہی ہیں، امراضِ قلب میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
آلودگی میں اضافہ بلڈ پریشر میں اضافے کی وجہ بنتا ہے۔ خون متاثر ہوتا ہے۔ اس کی روانی اثر انداز ہوتی ہے۔ دل کی دھڑکن بے ترتیب ہو جاتی ہے اور دل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
بہرحال اس اس موقع پر جب کہ دہلی کے باشندے شدید برعکس فضائی ماحول میں جینے پر مجبور ہیں، فلم ’بلیک میل‘ میں کشور کمار کے گائے ایک نغمے ’پل پل دل کے پاس تم رہتی ہو‘ کی پیروڈی سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ اسے موسیقار اور سماجی کارکن راہل رام نے تیار کیا اور گایا ہے۔ جی چاہتا ہے کہ اس کا ایک بند پیش کر دیا جائے۔
پیروڈی یوں ہے:
ہر شام اے کیو آئی، جب میں چیک کرتا ہوں
اِک سیلف ڈسٹرکٹیو سی، پھر آہ بھرتا ہوں
میں سانس لیتا ہوں، تو کھانسی آتی ہے
پہلے میں روتا تھا، اب ہنسی آتی ہے
میں ایستھما کی نالی میں، کھل کے بہتا ہوں
پل پل پولیوشن میں، میں رہتا ہوں
لنگس میں لگ گیا زنگ، یہ کہتا ہوں
پل پل پولیوشن میں، میں رہتا ہوں