کرونا وائرس کے آغاز پر لاک ڈاؤن اور مختلف پابندیوں نے روز مرہ زندگی میں ’نیو نارمل‘ کی اصطلاح کا اضافہ کیا اور اب یہی نیو نارمل ہماری آج کی زندگی کا معمول بن گیا ہے۔
سوال یہاں اب یہ ہے کہ کرونا وائرس کی وبا پر قابو پالینے کے بعد یہ نیو نارمل کس حد تک ’اولڈ نارمل‘ کو واپس لا سکے گا؟
کیا ہماری دنیا ایک بار پھر اس راہ پر گامزن ہو سکے گی جو ہم سے چھوٹ گئی ہے؟ کیا نیا معمول ہمیں وہ سب کچھ دوبارہ اسی انداز میں شروع کرنے دے گا جس کے ساتھ آج تک ہماری زندگیاں گزریں؟
ایک وقت تھا جب ہم معاشرتی اور سماجی فاصلوں اور تقسیم کو مٹانے کی جدوجہد کرتے تھے۔ لیکن، آج وہی فاصلہ زندگی کی ضمانت بنا ہوا ہے۔ کیا زندگی کے پرانے معمولات پر ہم ایک بار پھر بھروسہ کر سکیں گے؟ اقتصادی مسائل اور بے روزگاری کا دباؤ دوستوں اور احباب کی محفلیں سجانے کی اجازت دے سکے گا؟
یہ سارے سوال ہم سب کے سامنے ہیں اور مجھ جیسے رجائیت پسند آج بھی زندگی کی مضبوطی پر یقین رکھتے ہیں۔ ان سارے سوالوں کے باوجود میرا دل نہیں مانتا کہ ہم ان نئے سیکھے ہوئے سماجی فاصلوں کو اپنے پرانے تعلقات پر غالب آنے دے سکیں گے۔
مجھے یقین ہے کہ کل بھی کوئی دوست مشکل میں ہمیں آواز دے گا تو ہم اس کو گلے لگائیں گے۔ ہم آنے والے کل میں پھر سے وہی مجلسیں آباد کرنے کا اہتمام کریں گے جو اس نئی روٹین نے ہم سے دور کر دی ہیں۔ ہم اکیلے پن کے خوف سے نکل کر گلی کوچے، شہر اور قرئے پھر سے آباد کر لیں گے، کیونکہ زندگی چلتی رہتی ہے اور ہمارا ہاتھ تھامے اپنی رنگینیوں کی طرف کھینچ لیتی ہے۔ درست ہے ہم میں سے زیادہ لوگوں کے سامنے مسائل گھمبیر بھی ہونگے۔ لیکن، ہم ایک بار پھر اس سے نکل جائیں گے۔
انہی خوش کن امیدوں کے ساتھ ہم نے بات کی انسانی حقوق اور خاص طور پر خواتین کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لئے سر گرم ایکٹوسٹ، سلمان صوفی سے تو انہوں نے اپنے مخصوس انداز میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں کرونا وائرس کی وبا بہت سے ایسے معاملات کو سامنے لائی ہے جنہیں ہم جان بوجھ کر نظر انداز کرتے آئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
وہ کہتے ہیں کہ یہ درست ہے کہ اس وائرس نے جس انداز میں مقامی اور عالمی سطح پر زندگیوں کو متاثر کیا ہے اس کے بعد زندگی پہلے والی زندگی نہیں ہو پائے گی۔ آج ہر جگہ عوام اپنی حکومتوں کی صلاحیتوں اور مسائل سے نمٹنے کی استعداد کے بارے میں سوال کر رہے ہیں۔ ہر ملک میں حکام غیر معمولی حالات میں اپنے شہریوں کی دیکھ بھال کرنے کے ذمے دار ہیں۔ لیکن، کسی کو بھی اس وبا کی شدت اور تباہی کا اندازہ نہیں تھا اور بیشتر حکام نے اپنے لوگوں کو مایوس کیا، کیونکہ انہوں نے اپنی معیشت کی ترجیحات کا تعین نہیں کیا تھا۔
سلمان صوفی کے مطابق، بہت سے ملکوں میں صحت کا نظام بری طرح نظر انداز ہوا ہے۔ جہاں ڈاکٹر تک ضروری ساز و سامان سے محروم ہیں اور یوں وباؤں کا مقابلہ کرنے والا یہ ناگزیر طبقہ خود خطرے کا سامنا کر رہا ہے، جس کی وجہ سے کرونا وائرس کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی متاثر ہوئی ہے۔
سلمان صوفی کا کہنا ہے کہ اگرچہ وبائیں کوئی امتیاز روا نہیں رکھتیں، لیکن پھر بھی ان کے اثرات مختلف طبقوں پر مختلف انداز میں مرتب ہو رہے ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ یوں طبقاتی سطح پر بھی اس کے مختلف اثرات نظر آتے ہیں۔ ہم اب تک بہت سی چیزوں کو جن میں ہمارا کام اور روزگار بھی شامل ہے ’’فار گرانٹڈ‘‘ لیتے آئے ہیں اور اس بارے میں ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے اس سوال کے جواب میں کہ اس وبا کے خاتمے کے بعد وہ زندگی کے انداز کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، سلمان صوفی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ'’اس وبا کا مقابلہ کرنے اور اس پر قابو پانے کے بعد انسانوں کی ذہنی اور جسمانی بہتری کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہوگی''۔
انھوں نے کہا کہ ''اس وبا کو عالمی سطح پر ایک ایسی یاد دہانی کے طور پر لینے کی ضرورت ہے کہ اپنے عوام کی فلاح اور خوشحالی کو ترجیحات میں شامل کیا جائے۔ پھر محتاط رویے درکار ہونگے، کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ وائرس کے بعد کچھ ممالک میں سرحدوں پر سیکیورٹی اور سلامتی کو مستحکم کیا جائے اور یہ بھی خدشہ ہے کہ نسلی، مذہبی اور سماجی اقتصادی پس منظر کے حوالے سے مخصوص رویے پیدا ہو جائیں۔ ہمیں تیار رہنا ہوگا کہ اگر وائرس کے بعد ’’گریٹ ڈپریشن‘‘ کی صورت پیدا ہوتی ہے، تو ہم مثبت سوچ کے ساتھ اس کا مقابلہ کر سکیں اور اپنے وسائل کو اس انداز میں استعمال کریں کہ کوئی اکیلا اور تنہا نہ رہ جائے''۔
اور، اسی مثبت نوٹ پر کہ کہیں کوئی اکیلا تنہا اور پیچھے نہ رہ جائے، ہمیں زندگی کو اس انداز میں راہ دکھانا ہوگی، تاکہ گئی رونقیں اور سنسان محفلیں ایک بار پھر آباد ہو سکیں۔