Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست تو شاید معدوم ہوچکی، لیکن سرخ انقلاب کے حامی دانشور خم ٹھونک کر سامنے آگئے ہیں اور حکومت کے علاوہ ریاستی اداروں کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ریاست اور عوام کے درمیان عمرانی معاہدہ ٹوٹ چکا ہے، جبکہ اقتدار پر ایک قسم کا نرم اور سست فوجی قبضہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
گزشتہ ہفتے لاہور میں فیض میلہ منعقد ہوا تو اس کے منتظمین نے چار دانشوروں سے معذرت کی کہ وہ مدعو کیے جانے کے باوجود شرکت نہ کریں، کیونکہ دوسری صورت میں فیسٹول کا انعقاد خطرے میں پڑجائے گا۔ ان میں ’لمز یونیورسٹی‘ کے استاد اور لال بینڈ کے موسیقار ڈاکٹر تیمور رحمان، راشد رحمان، دانشور اور استاد عمار علی جان اور پشتون تحفظ تحریک کے رہنما علی وزیر شامل تھے۔
تیمور رحمان نے ’وائس آف امریکا‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انھیں فیض میلے میں بولنے سے شاید اس لیے روکا گیا کہ وہ حکومت وقت پر، اس کی پالیسیوں پر اور دائیں بازو کی کچھ جماعتوں پر تنقید کرتے ہیں اور وہ تنقید مقبول ہوتی چلی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہوسکتی ہے۔ جن لوگوں پر انھوں نے پابندی لگائی، ان سب میں مشترک بات یہ ہے کہ سب بائیں بازو کے لوگ ہیں۔
تیمور رحمان نے بتایا کہ انھیں دو موضوعات پر بات کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ ایک سیشن عاصمہ جہانگیر اور منو بھائی کی یاد میں تھا جس میں اظہار کی آزادی پر بات ہونی تھی، جبکہ دوسرا سیشن متوازی سیاست کے موضوع پر تھا۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان میں ہمیں جو چیز نظر آرہی ہے، جو بہت تشویش ناک ہے، اور بہت سے لوگ اس بارے میں لکھ بھی رہے ہیں کہ اقتدار پر ایک قسم کا نرم اور سست فوجی قبضہ دکھائی دے رہا ہے۔ اس کے اندر رائے کے اظہار، صحافت اور ثقافت کی آزادی پر پابندیاں بڑھتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ بہت سے سینئر صحافیوں کو میڈیا ہاؤسز سے رفتہ رفتہ نکالا جا رہا ہے جو اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
عمار علی جان نے کہا کہ انھوں نے فیض میلے میں وہی باتیں کرنی تھیں جو اور بہت سے لوگوں نے کیں۔ سیدھی سیدھی گفتگو، جیسے انسانی حقوق کی باتیں، آئین کی بالادستی کی باتیں۔ ایک بات میں اکثر کرتا ہوں کہ ریاست اور عوام کے درمیان عمرانی معاہدہ ٹوٹ چکا ہے اور اب زور زبردستی پر چلانے کے بجائے اس کی تجدید کی ضرورت ہے، تاکہ عوام اور ریاست کا رشتہ قائم کیا جاسکے۔
عمار علی جان کا کہنا تھا کہ سیکڑوں یونیورسٹیاں ہیں۔ لیکن، کہیں تنقیدی سوچ نہیں ہے۔ درجنوں نیوز چینل ہیں۔ لیکن میڈیا آزاد نہیں ہے۔ ادبی اور ثقافتی میلے ہو رہے ہیں۔ لیکن آزادانہ تبادلہٴ خیالات نہیں ہوسکتا۔ گویا ایک ڈراما ہے جس میں ہم سب پرفارمنس دے رہے ہیں۔ جمہوری نظام کو سمجھنے والا کوئی بھی شخص یہ نہیں مان سکتا کہ اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے، یہ مذاق نہیں ہے۔ یہ اسٹیج کی ہوئی ڈیموکریسی ہے، کنٹرولڈ جمہوریت ہے۔ خدشات ہیں کہ فیصلے وہاں نہیں ہو رہے جہاں انھیں ہونا چاہیے۔
تیمور رحمان اور عمار علی جان نے مذاکرے میں شرکت سے روکے جانے کے باوجود فیض میلے میں شرکت کی اور اپنے دوستوں کو بائیکاٹ سے منع کیا۔ منتظمین نے اگرچہ ان دانشوروں کو بولنے سے روکنے کی کوئی وجہ بیان نہیں کی لیکن اسٹیج پر ان کی کرسیاں خالی رکھ کر دباؤ ڈالنے والے نامعلوم لوگوں کے خلاف خود بھی احتجاج کیا۔
دوسری جانب ترقی پسند کالم نگار اور پبلشر فرخ سہیل گوئندی روزنامہ ’نئی بات‘ میں سات سال سے کالم لکھ رہے تھے۔ اخبار نے ان کے کالم مزید چھاپنے سے معذرت کرلی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ صرف ان لوگوں کے ساتھ ہو رہا ہے جو آزاد رائے رکھتے ہیں، قومی سیاست کا آزادانہ تجزیہ کرتے ہیں، حکومت، ڈیپ اسٹیٹ اور معاشرے کے بارے میں بہتر فہم رکھتے ہیں۔ جو ایک خاص بیانیے کے موافق رائے رکھنے والے لوگ ہیں، ان کے ساتھ تنخواہوں کا مسئلہ نہیں ہورہا، وہ بجٹ یا فنانشل کرنچ کی زد میں نہیں آرہے۔ میں بھی اسی بھل صفائی کا شکار ہوا ہوں۔ ان دنوں کوئی شخص اگر غیر جانبدارانہ بات کرتا ہے تو وہ قابل قبول نہیں ہے۔
دائیں بازو کے ہمدرد ایک اخبار کے ایڈیٹر نے کچھ عرصہ پہلے وائس آف امریکا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ کسی کالم نگار کی تحریر کو چھاپنے یا نہ چھاپنے کا سنسرشپ سے تعلق ہونا ضروری نہیں۔ ہر ایڈیٹر کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنے اخبار کی پالیسی کے خلاف کسی تحریر کو روکے یا کالم نگار کو نہ چھاپے۔