اصغر ندیم سید استاد ہیں، پینتیس سال پڑھا چکے ہیں۔ شاعر ہیں اور مجموعہ کلام چھپ چکا ہے۔ ڈراما نگار ہیں اور چاند گرہن سمیت کئی مقبول سیریل لکھ چکے ہیں۔ کالم بھی لکھتے ہیں۔ اصغر ندیم سید نے مارشل لا کے ادوار دیکھے ہیں اور سنسرشپ بھگتی ہے۔ انھوں نے ایک حساس ادیب کی حیثیت سے اپنی تحریروں میں زباں بندی کے کرب کا اظہار کیا ہے۔ چار سال پہلے وہ ایک حملے میں زخمی بھی ہوئے۔
میں نے اصغر ندیم سید کو بتایا کہ گزشتہ دنوں میں نے بارہ پندرہ سینئر صحافیوں کے انٹرویوز کیے جن میں سے بیشتر کا کہنا ہے کہ ملک میں میڈیا کو سنسرشپ کا سامنا ہے۔ پھر پوچھا کہ ماضی میں ادیب شاعر سنسرشپ کے خلاف صحافیوں کے ہم آواز ہوتے تھے۔ اس بار ہمارے ادیب شاعر کیوں خاموش ہیں؟
اصغر ندیم سید نے کہا کہ آج کل ویسے حالات نہیں ہیں جیسے ایوب خان کے زمانے میں تھے یا ضیا الحق کے زمانے میں تھے۔ میں نے لڑکپن میں ایوب خان کا دور دیکھا ہے۔ پھر میری جوانی کے گیارہ سال مارشل لا کے جبر میں گزرے ہیں۔ اس دور میں اور موجودہ دور میں فرق ہے۔ یہ جمہوری دور ہے۔ اگر صحافت پر کسی قسم کی پابندی ہے تو وہ ویسی نہیں ہے۔ یہ ضرور ہے کہ کچھ ایسے موضوعات ہیں جو حکومت شاید نہیں چاہتی کہ سامنے آئیں۔ لیکن ٹی وی ٹاک شوز میں حکومت کے خلاف کھلم کھلا الزامات لگائے جاتے ہیں۔ میں سمجھ نہیں پارہا کہ آپ کس سنسرشپ کی بات کررہے ہیں۔ اب کوئی عدالت کے خلاف بات کرے گا تو پھر تو پیمرا کہے گی کہ بھئی یہ توہین عدالت ہے۔ اسی طرح اگر کچھ اداروں کے خلاف، سیکورٹی ایجنسیوں کے خلاف بات ہوگی تو خیال رہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ چل رہی ہے۔ اس بارے میں کوئی پروگرام کرتا ہے تو اور بات ہے۔ لیکن عام آدمی، ایک شاعر جو نظم کہتا ہے، جو ادب تخلیق کرتا ہے، اس پر پابندی کی میں نے کوئی بات نہیں سنی۔
میں نے کہا کہ ماضی میں ضمیر نیازی جیسے صحافی اگر سنسرشپ کے خلاف لکھتے تھے تو فیض، جالب اور فراز بھی نظمیں کہتے تھے۔ اب صحافیوں اور ادیبوں کی سوچ میں فاصلہ کیسے ہوگیا ہے؟ پہلے تو ادیب شاعر خود صحافت کا حصہ ہوتے تھے۔
اصغر ندیم سید نے کہا کہ جی ہاں، اب آپ نے بات کی ہے۔ ضیا الحق کے زمانے میں ہم ادیب شاعر بولے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آدھا اخبار سنسر کی قینچی سے کٹا ہوا ہوتا تھا۔ سب کو پتا ہے کہ اس وقت جتنے اخبار تھے، رات کو ان کی کاپی مارشل لا والوں کے سامنے پیش ہوتی تھی۔ اور وہ ناپسندیدہ خبریں اکھاڑ دیتے تھے۔ اگلے دن اخبار چھپتا تھا تو وہ جگہ خالی ہوتی تھی۔ وہ اور طرح کا اک دور تھا۔ آج اخبار کو اس طرح کی سنسرشپ کا سامنا نہیں ہے۔ اگر کسی شاعر کے مجموعہ کلام یا کسی ادیب کے افسانے یا کسی نقاد کی کتاب کو ضبط کیا جائے گا تو میں نہیں سمجھتا کہ ادیب خاموش رہیں گے۔ لیکن اگر عدالت کے بارے میں، سیکورٹی ایجنسیوں کے بارے میں یعنی ہمارے اداروں کے بارے میں تحقیق کیے بغیر یا کسی بھی وجہ سے کوئی کچھ لکھے اور اس پر پابندی لگے تو پھر ادیب شاعر اس پر ردعمل نہیں دے گا۔ ادیب تب ردعمل دیتا ہے جب انسانی اقدار کو خطرہ ہوتا ہے۔ ادیب تب کھڑا ہوتا ہے جب انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ یا اگر صحافت پر بھی قدغن ہوگی تو بھی بولیں گے۔ لیکن صحافی خود تو کھڑا ہو۔
آپ صحافیوں کو جانتے ہیں۔ لفافہ جرنلزم کی اصطلاح خود انھوں ہی نے وضع کی ہے۔ خود صحافی ہی صحافیوں کے بارے میں یہ لکھ رہے ہیں۔ ایک بات۔ اور دوسری بات، آپ نے دیکھا ہے کہ صحافی اب ٹی وی میں چلا گیا ہے۔ ٹی وی میں جانے کے بعد وہ اسٹیک ہولڈر بن گیا ہے۔ مبشر زیدی! میں نے نیا ’فینومنا‘ دیکھا ہے کہ کالم نویس یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ حکومت بنا بھی سکتا ہے اور گرا بھی سکتا ہے۔ ایسے لوگ سیاست دانوں کے مشیر بن گئے ہیں۔ اس صورتحال کو ضیا الحق دور سے نہ ملائیں۔ اس وقت ہماری جان پر بنی تھی۔ ادیب شاعر شاہی قلعے میں قید تھے۔ اس زمانے میں گورنمنٹ کالجوں کے سو پروفیسروں کو تبدیل کرکے باہر نکال دیا گیا تھا۔ ادیب شاعر نے ان حالات کا جم کر مقابلہ کیا۔ کوڑوں کو بھی برداشت کیا۔ آج کوڑوں والی صورتحال نہیں ہے۔ آج اگر صحافت پر قدغن آرہی ہے تو سب سے پہلے صحافی کو باہر آنا پڑے گا۔ کیوں نہیں آتے؟ کیوں کہ ان کے اپنے مفادات پر زد پڑتی ہے۔ یہ سامنے آئیں، میں دیکھتا ہوں کہ ادیب کیسے نہیں باہر آتے۔
میں نے بتایا کہ صحافیوں کی ملک گیر تنظیم پی ایف یو جے نو اکتوبر سے احتجاج کر رہی ہے اور صحافی باہر نکلے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی قسم کے احتجاج قومی میڈیا پر نہیں دکھائے جاسکتے۔ مثال کے طور پر پشتون تحفظ موومنٹ کا کوئی احتجاج آپ نے ٹی وی پر نہیں دیکھا ہوگا۔ انسانی حقوق کمیشن بھی میڈیا سنسرشپ کے بارے میں رپورٹ جاری کرچکا ہے۔
اصغر ندیم سید نے کہا کہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ جی ہاں میں نے یہ نوٹ کیا ہے کہ ایک نادیدہ قسم کی۔۔۔ مالکان کو بلاکر۔۔۔ آپ نے بالکل صحیح بات کی۔ لیکن اس کے مقابلے میں سپریم کورٹ نے صحافیوں کی تنخواہوں کا مقدمہ بھی سنا ہے۔ جہاں تک نادیدہ قسم کی سنسرشپ کی بات ہے تو ہم تیار ہیں۔ ہم ادیب شاعر یقیناً کوئی پیچھے نہیں رہے گا۔ لیکن پی ایف یو جے کو اپنے کیس کو تھوڑا سا سامنے لانا پڑے گا۔ سب سے پہلے تو خود جس پر زد پڑتی ہے، وہ سامنے آتا ہے۔ پھر دوسرے طبقے ان کا ساتھ دیتے ہیں۔
میں نے کہا کہ مقتدرہ قومی زبان نے مزاحمتی ادب کے نام سے ایک مجلہ شائع کیا تھا جس میں ضیا الحق دور میں احتجاجی ادب تخلیق کرنے والوں کی شاعری اور افسانے شامل کیے گئے تھے۔ لیکن کوئی بڑا اردو ناول سامنے نہیں آیا جیسے مشرقی یورپ یا لاطینی امریکا کے ادیبوں نے لکھے، چین میں آج بھی مزاحمتی ادب تخلیق کیا جارہا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ گھٹن کا ماحول بڑے ادب کی تخلیق کے لیے سازگار ہوتا ہے۔
اصغر ندیم سید نے کہا کہ یہ سوال تو اسی سلسلے میں ہے کہ اردو میں بڑا ادب کیوں سامنے نہیں آیا؟ آپ نے ٹھیک بات کی ہے۔ چلی کے ادیب ہوں، لبنان کے ہوں، مصر کے ہوں، انھوں نے بڑا ادب تخلیق کیا ہے۔ یا تو ہماری روایت میں کمی ہے یا ہماری زبان کی طاقت میں کچھ کسر ہے۔ میں اس پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن ضیا الحق کے دور میں انیس ناگی کا ناول ’دیوار کے پیچھے‘ بہت اہم تھا۔ انور سجاد کا ناول ’خوشیوں کا باغ‘ بہت اہم تھا۔ افسانے میں تو بہت کام تھا۔ احمد داؤد، سمیع آہوجا اور منشا شاد اور بہت سے لوگوں نے علامتی انداز میں یا کھل کھلا کر بھی لکھا۔ مزاحمتی ادب کا مجلہ مقتدرہ قومی زبان نے نہیں، اکادمی ادبیات نے دو جلدوں میں شائع کیا تھا۔ اس میں میری تحریریں بھی شامل تھیں۔ کچھ بھی ہو، آج عدالتیں آزاد ہیں۔ کچھ بھی ہو، آج جمہوریت ہے۔ کچھ بھی ہو، پارلیمان موجود ہے۔ کچھ بھی ہو، احتجاج کیا جاسکتا ہے۔ اس فرق کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔
ہمارے ہاں ادیب کا ایک عجیب و غریب مخمصہ ہے۔ ہم لوگوں کا ایکسپوژر نہیں ہے۔ ہم لوگوں نے دوسری زبانوں کے ادب کا مطالعہ نہیں کیا۔ ہم لوگوں کا وژن بڑا نہیں ہے۔ ہم لوگ سفر تک نہیں کرسکتے۔ ہم اپنے ملک کو تو ٹھیک سے دیکھ نہیں سکتے۔ بڑا ادب، بڑا ناول تجربے کی دین ہوتا ہے۔ اس کے پیچھے بصیرت، تجربہ اور مصائب ہوتے ہیں۔ وہ سب چیزیں اردو کے ادیب کے پاس نہیں۔ ہمارا ادیب بہت مختصر مدت میں فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ کہ آج چھپ جائے اور کل دو تبصرے ہوجائیں۔ لمبی اننگز کھیلنے والے نہیں ہیں۔ ہمارا ادیب عالمی ادب کے ساتھ جڑا ہوا نہیں ہے۔ وہ سب سے کٹا ہوا ہے۔
میں نے سوال کیا کہ کیا ہمارے ادیب شاعر کو سیاسی فکر کا حامل ہونا چاہیے یا نہیں؟ سیاسی غیر جانب داری ادب کی تخلیق میں معاون ہوتی ہے یا نہیں؟
اصغر ندیم سید نے کہا کہ غیر جانب دار کوئی نہیں ہوتا۔ اگر کوئی غیر جانب دار ہے تو ادیب نہیں ہے۔ ہر اچھے ادیب کو پوزیشن لینی پڑتی ہے، کوئی موقف اختیار کرنا پڑتا ہے۔ اچھا ادیب بنیادی طور پر سیاسی فکر کا مالک ہوتا ہے ورنہ وہ پھر انسانی مسائل کو دیکھ نہیں پائے گا۔ اچھا ادیب پوزیشن لیے بغیر لکھ ہی نہیں سکتے۔ یہ طے ہے کہ سیاسی بصیرت کے بغیر آپ ایک لفظ نہیں لکھ سکتے۔ اگر لکھیں گے تو سماج سے اس کا تعلق نہیں ہوگا۔ اس کی ادب میں کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔
نوٹ: وائس آف امریکہ اردو نے پاکستان میں پریس فریڈم کی صورتِ حال کے بارے میں انٹرویوز کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس میں صحافیوں، میڈیا اداروں کے مالکان اور میڈیا کے بارے میں سرکاری پالیسی سے متعلق عہدیداروں سے گفتگو شامل کی جاتی رہے گی۔ اوپر دیا گیا انٹرویو اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔