’واشنگٹن پوسٹ‘ کے نمائندے، جیسن رضائیاں کے ایک وکیل کا کہنا ہے کہ مبینہ جاسوسی کے اس مقدمے کا فیصلہ ’ایک ہفتے کے اندر اندر سامنے آسکتا ہے‘، جس سے قبل عدالت نے پیر کے روز بند کمرے کی حتمی سماعت کی کارروائی کی۔
لیلہ آشان نے یہ بات مقدمے کی چوتھی سماعت کے بعد بتائی۔ مقدمے کی کارروائی کا آغاز مئی میں ہوا تھا۔
دِی واشنگٹن پوسٹ، امریکی اہل کاروں اور بین الاقوامی آزادی صحافت کے گروپ، سبھی نے بارہا مقدمے کی کارروائی کی مذمت کی ہے، جو اس بات کو دہراتے ہیں کہ رضائیاں بے گناہ ہے۔
اُنھیں جولائی 2014ء میں اپنی بیوی اور صحافی، یگانے صالحی کے ہمراہ گرفتار کیا گیا، جنھیں کئی ماہ تک باضابطہ الزامات کے بغیر حراست میں رکھا گیا۔
بعدازاں، اُن پر جاسوسی اور ’دشمن حکومتوں‘ کی شہ پر کام کرنے کا الزام لگایا گیا۔
ہفتے کے روز ایک بیان میں، ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے منتظم ایڈیٹر، مارٹن برَون نے مقدمے کو ’شرمناک‘ قرار دیا، اور کہا کہ الزامات ’اِس سے زیادہ بے بنیاد اور مضحکہ خیز نہیں ہوسکتے‘۔
بقول اُن کے،’ اِس تمسخر آمیز مقدمے کے دوران، ایران مدہوشی کا مظاہرہ کرتا رہا ہے‘۔
مارٹن برون کے مطابق، ایران نے ایک برس سے زائد مدت سے ایک بے گناہ صحافی کو قید کر رکھا ہے، جب کہ اُس کے ساتھ بُرا جسمانی برتاؤ روا رکھا گیا ہے اور نفسیاتی طور پر اذیت دی گئی ہے۔
برون نے عدالت پر زور دیا کہ رضائیاں کو رہا کیا جائے، یہ کہتے ہوئے کہ ایران کے پاس ایک موقع ہے کہ وہ رحمدلی کی بنیاد پر اس معاملے کو حل کرے۔
امریکی محکمہٴخارجہ کے ترجمان، مارک ٹونر نے جمعرات کی بریفنگ کے دوران نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ امریکہ رضائیاں اور ایران میں قید تمام امریکیوں کی رہائی کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ رضائیاں سے ایران کو کوئی خطرہ لاحق نہیں، اور یہ کہ، اِس ضمن میں امریکہ کو مایوسی ہوئی ہے۔
مزید دو امریکی، سعید عابدین اور امیر حکمتی کئی برسوں سے ایران میں قید ہیں۔