فرنیچر کی پالش اور لاکھ دانے کی اہمیت
یہ کوئلے کی ایک چھوٹی سی بھٹی کے اوپر بندھے تھیلے سے کچھ مواد نکالنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔
کاٹن کے سفید تھیلے میں لاکھ دانہ اور بروزے کی آمیزش بھری ہوتی ہے۔
لاکھ بیر، کیکر اور پیپل کے درخت کی پیداوار ہے۔ جب کہ بروزہ ایک طرح کا گوند ہے جو چیڑ کی لکڑی یا پھل میں سے نکلتا ہے اور اس کو گندہ بروزہ کہتے ہیں۔
لاکھ دانہ اوربروزہ سے بھرے تھیلے کو بند کر کے کوئلے سے تیار کردہ بھٹی پر لگے کنڈے پر لٹکایا جاتا ہے۔
تھیلے کا ایک سرہ کاری گر کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ کوئلے سلگنے پر جیسے ہی تھیلے کو گرمائش ملنا شروع ہوتی ہے تو اس میں موجود لاکھ دانہ اور بروزہ پگھلنے لگتا ہے۔
اسے ایک چپٹے اوزار کی مدد سے کاری گر انتہائی مہارت سے باہر نکالتا ہے اور حاصل کردہ مواد کو پاس پڑے لال پتھر پر پھیلا دیا جاتا ہے۔
ٹھنڈی تاثیر رکھنے والا لال پتھر گرما گرم مواد کو منٹوں میں ٹھنڈا کر دیتا ہے۔ جسے لاکھ چپڑا کہا جاتا ہے۔
لاکھ چپڑا کے ٹھنڈا ہونے سے پہلے ہر بیوپاری اس پر اپنے نام کی مہر لگانا نہیں بھولتا۔
ایک کاری گر روزانہ تقریبا 30 کلو لاکھ چپڑا تیار کرتا ہے۔
لاکھ چپڑا درحقیقت لاکھ دانے کی ریفائن شکل ہے، یعنی لاکھ دانے اور بروزے کو اس عمل سے گزارنے کے بعد ان کا گند کپڑے میں ہی رہ جاتا ہے۔
یوں تو لاکھ دانہ ایک پنساری شے ہے۔ جس کا استعمال ادویات میں بھی ہوتا ہے لیکن خصوصا لاکھ مرچنٹس کی ان دکانوں سے لاکھ دانہ لے جانے والوں میں فرنیچر بنانے والے شامل ہیں۔
لکڑی کی اشیائے ضروریہ کو رنگتے وقت لاکھ چپڑے کو گرم کرکے کالے، سُرخ، گولڈن، بھورے یا کسی بھی من پسند لکڑی کے رنگ میں ملا کر پالش تیار کی جاتی ہے۔
لاکھ دانہ کو اسپرٹ میں ڈال کر رکھ دینے سے یہ پانی میں گُھل جاتا ہے اور پھر یہی فرنیچر پالش کہلاتی ہے۔ جسے کسی بھی قسم کے فرنیچر پر لگا کر چمکایا جاتا ہے۔
لاکھ چپڑے کا استعمال لکڑی کی چارپائیوں کے پائے، پیڑھیاں، موڑھے اور چکلے بیلنے کو رنگنے میں کیا جاتا ہے۔
یہاں کے تاجروں کے مطابق وہ لاکھ دانہ بھارت، چین اور تھائی لینڈ سے درآمد کرتے ہیں۔
پاکستان میں اس کی پیداوار صرف صوبہ سندھ کے شہر حیدر آباد میں ہوتی ہے۔
صوبہ بھر سے ترکھان اس مارکیٹ سے لاکھ دانہ، لاکھ چپڑا، سریش دانہ، پاپڑ سلیش اور لکڑی کے رنگ جیسی اشیا خریدنے آتے ہیں۔