لاہور ہائی کورٹ کے ریفری بینچ نے شہباز شریف کی درخواست ضمانت منظور کر لی

شہباز شریف (فائل فوٹو)

لاہور ہائی کورٹ نے آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف شہباز شریف کی درخواست ضمانت متفقہ طور پر منظور کر لی ہے۔ عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں شہباز شریف کو 50، 50 لاکھ روپے کے دو ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔

جمعرات کو عدالتِ عالیہ لاہور کے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے شہباز شریف کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس عالیہ نیلم اور جسٹس سید شہباز رضوی بھی شامل تھے۔

سماعت شروع ہوئی تو نیب کے اسپیشل پراسیکیوٹر سید فیصل رضا بخاری نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار کے وکیل کا تین سے چار دن تک فیصلہ جاری نہ کرنے کا بیان دینا توہین آمیز تھا۔

شہباز شریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ وہ اپنی بات پر قائم ہیں کیوں کہ یہ حقیقت تھی کہ تین سے چار دن تک فیصلہ جاری نہیں ہوا۔

جسٹس علی باقر نجفی نے اِس موقع پر کہا کہ اُنہوں نے کل کہا تھا کہ ہم ججز تبھی فیصلے پر دستخط کرتے ہیں جب ہم پوری طرح مطمئن ہوتے ہیں۔ جسٹس علی باقر نجفی نے نیب پراسیکیوٹر سے کہا کہ آپ کا نکتہ نوٹ کر لیا گیا ہے۔ آپ دلائل دیں۔

نیب پراسیکیوٹر نے عدالت سے کہا کہ سلمان شہباز، نصرت شہباز، رابعہ عمران، ہارون یوسف اشتہاری قرار دیے جا چکے ہیں۔ نیب نے گزشتہ سال 20 اگست کو ریفرنس دائر کیا۔ شہباز شریف کے بے نامی داروں کو جائیدادوں کی تفصیلات کے لیے طلبی کے نوٹسز جاری کیے مگر کوئی پیش نہیں ہوا۔

نیب پراسکیوٹر نے دلائل دیے کہ ملزم شہباز شریف کی اہلیہ نصرت شہباز کے نام چھ کنال پر مشتمل ماڈل ٹاؤن 96 ایچ اور چار کنال پر مشتمل 87 ایچ کی رہائش گاہیں ہیں۔ اِسی طرح ملزم کی اہلیہ کے نام ڈونگا گلی ایبٹ آباد میں واقع نو کنال ایک مرلہ کی جائیداد بھی ہے۔

نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ شہباز شریف کی دوسری اہلیہ تہمینہ درانی کے نام پر ہری پور وسپرنگ پائینز ریزوٹس میں کاٹیج نمبر 23 اور چھ مرلے پر مشتمل ولا نمبر 19 جب کہ چھ مرلے کا پلاٹ بھی موجود ہے۔

نیب پراسیکیوٹر سید فیصل رضا بخاری نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ 2005 میں شہباز شریف خاندان کے نام پر پہلی ٹی ٹی لگی تھی۔ 13 انڈسٹریل یونٹ اور بے نامی کمپنیاں بھی ملزم شہباز شریف اور ان کے اہلِ خانہ کے نام پر ہیں۔

اِس موقع پر جسٹس علی باقر نجفی نے استفسار کیا کہ کیا یہ ساری کمپنیاں 2005 میں بنائی گئیں؟

نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ 2005 کے بعد سے مختلف عرصے کے دوران یہ تمام کمپنیاں بنائی گئیں۔ 2008 سے 2018 کے دوران آٹھ بڑی کمپنیاں شہباز شریف خاندان کے نام پر بنائی گئیں۔ اِسی طرح 299 ملین روپے کے اثاثے اور 26 ٹیلی گرافک ٹرانسفرز نصرت شہباز کے نام پر منتقل ہوئیں۔

SEE ALSO: پاکستان میں شوگر انڈسٹری پر 'گٹھ جوڑ' اور 'سٹے بازی' کے الزامات، معاملہ ہے کیا؟

بینچ کے سربراہ جسٹس علی باقر نجفی نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کہ نیب نے تفتیش کی کہ کک بیکس کہاں سے حاصل کی گئیں۔ اگر K بلاک میں بوریوں کی بوریاں روپے اکٹھے ہو رہے تھے تو وہ رقم کون اکٹھی کرا رہا تھا۔ کیا نیب نے ان تمام ذرائع کی تحقیقات کی ہیں؟

جس پر شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ ان باتوں کا جواب نیب کے پاس نہیں ہے، ان سوالات پر نیب خاموش ہے۔

شہباز شریف کے وکلا نے نکتہ اٹھایا کہ شہباز شریف کی درخواست ضمانت پر رہائی کی استدعا کی گئی ہے۔ ریفرنس خارج کرنے کی درخواست دائر نہیں ہے۔

تین رکنی ریفری بینچ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس سرفراز ڈوگر کے فیصلے سے اتفاق کیا۔ ریفری بینچ نے شہباز شریف کی رہائی کا حکم دے دیا۔

عدالتی فیصلے کے بعد ٹوئٹر پر مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے اپنے ایک پیغام میں کہا کہ 10 سال کہیں بھی ناانصافی کا سن کر پہنچ جانے والے کو آخر انصاف مل گیا۔

خیال رہے کہ اس سے قبل رواں ماہ 14 اپریل کو ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ میں شامل جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر نے شہباز شریف کی ضمانت منظور کی تھی جب کہ جسٹس اسجد جاوید گورال نے ضمانت مسترد کر دی تھی جس پر عدالتِ عالیہ لاہور کے چیف جسٹس قاسم علی خان نے یہ معاملہ ریفری جج کو بھجوایا دیا تھا۔

واضح رہے گزشتہ برس ستمبر میں لاہور ہائی کورٹ نے آمدن سے زائد اثاثہ جات اور منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف کی درخواست ضمانت مسترد کر دی تھی۔ جس کے بعد قومی احتساب بیورو نے انہیں احاطہ عدالت سے گرفتار کر لیا تھا۔