جب لاپرواہی اور قوانین سے لاعلمی پاکستانی ٹیم کو مہنگی پڑی

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا میلہ تو آسٹریلیا میں جاری ہے لیکن پاکستان کرکٹ شائقین کے لیے یہ میگا ایونٹ ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہو رہاہے۔ پہلے میچ میں روایتی حریف بھارت اور دوسرے میں زمبابوے سے آخری گیند پر شکست کے بعد پاکستانی ٹیم کے سیمی فائنل میں پہنچنے کے امکانات اب کم ہیں۔

جمعرات کو زمبابوے کے خلاف اپ سیٹ میں تو ٹیم کی کارکردگی مایوس کن رہی لیکن گرین شرٹس کے مداح اب تک بھارت کے خلاف میچ کے آخری لمحات میں کھلاڑیوں کی بوکھلاہٹ کو نہیں بھول سکے۔

بھارتی بلے باز وراٹ کوہلی کی بیٹنگ کے دوران دی گئی نو بال کو چیلنج کرنے کی کوشش سے لے کر فری ہٹ کے بعد بننے والے رنز کو ڈیڈ بال سمجھنا، گرین شرٹس کی قوانین سے ناواقفیت یا ان میں عدم دلچسپی کی نشان دہی کرتا ہے۔

اگر پاکستانی ٹیم میں موجود ایک بھی کرکٹر کو اس موقع پر قوانین کے بارے میں معلوم ہوتا تو شاید پاکستان یہ میچ جیت بھی سکتا تھا اور شاید آج گرین شرٹس سیمی فائنل کی دوڑ میں آگے ہوتے۔


یہ پہلا موقع نہیں کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کو ان کی کرکٹ قوانین سے لاعلمی مہنگی پڑی۔ 1987 میں انگلینڈ کے خلاف کراچی میں کھیلے گئے ون ڈے میچ میں رمیز راجہ ون ڈے کرکٹ کی تاریخ کے پہلے کھلاڑی بنے جنہیں 'آبسٹرکٹنگ دی فیلڈ' یعنی آؤٹ ہونے سے بچنے کے لیے جان بوجھ کر فیلڈرز کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی پاداش میں آؤٹ قرار دیا گیا تھا۔

وہ کراچی میں کھیلے گئے میچ کی آخری گیند پر اپنے 100 ویں رن کے لیے بھاگ رہے تھے کہ فیلڈر کی پھینکی ہوئی تھرو کو وکٹ پر لگنے سے روکنے کی پاداش میں انہیں آؤٹ قرار دیا گیا۔

سن 1992 کے ورلڈ کپ کے فائنل میں بھی اننگز کا آغاز کرتے ہوئے جب رمیز راجہ ویسٹ ہائی نو بال پر کیچ ہوئے تو امپائر کی جانب دیکھنے کے بجائے پویلین کی طرف جانے لگے۔ساتھی اوپنر عامر سہیل کے اشارے پر وہ بروقت کریز پرپہنچے ورنہ وہ رن آؤٹ بھی ہوسکتے تھے۔

کچھ اسی قسم کا معاملہ ان کے ساتھ پانچ سال قبل آسٹریلوی سرزمین پر انگلش ٹیم ہی کے خلاف پیش آچکا تھا۔ اس وقت وہ پرتھ کے مقام پر انگلش کپتان مائیک گیٹنگ کی گیند پر (کریز سے باہرہونے والی ) نوبال پر کیچ آؤٹ ہوئے تھے۔ لیکن اپنی کریز سے باہر ہونے کی وجہ سے انہیں فیلڈر او ر کیپر کے گٹھ جوڑ نے رن آؤٹ کردیا تھا۔



کرکٹ کے قوانین سے لاعلمی کب کب پاکستانی کھلاڑیوں کو مہنگی پڑی؟

ہر کھلاڑی قوانین سے لاعلم نہیں ہوتا اور جاوید میانداد کا شمار ایسے کھلاڑیوں میں تھا جو ہر قانون کے بارے میں خود کو اپ ڈیٹ رکھتے تھے۔ جب پہلی مرتبہ 1992 کا ورلڈ کپ 'فیلڈ ریسٹریکشن 'کے قانون میں تبدیلی کے بعد کھیلا گیا تو ویسٹ انڈیز کے خلاف میچ میں انہوں نے امپائرز کی توجہ اس ایک کھلاڑی کی جانب دلائی جو قوانین کی رو سے غلط کھڑا تھا۔

جاوید میانداد 1999 تک ٹیم کے ساتھ کبھی کھلاڑی تو کبھی کوچ کی حیثیت سے جڑے تو رہے، لیکن ان کے جاتے ہی 1999 کے ورلڈ کپ میں سابق کرکٹرز انضمام الحق اور اعجاز احمد کے مضحکہ خیز رن آؤٹ نے پاکستانی شائقین کو مایوس اور دیگر ٹیموں کے شائقین کو محظوظ کیا۔



اس ورلڈ کپ میں متعدد مرتبہ ایسا ہوا کہ یا تو دو بلے باز ایک ہی اینڈ پر پہنچ کر کھڑے ہوجاتے اور امپائر کو فیصلہ کرنا پڑتا کہ دونوں میں سے آؤٹ کس کوقرار دیا جائے۔

سن 2005 میں جب انگلش ٹیم آخری مرتبہ ٹیسٹ سیریز کھیلنے پاکستان آئی تھی، تب بھی انضمام الحق کی لاعلمی انہیں لے ڈوبی تھی۔ انہوں نے فاسٹ بالر اسٹیو ہارمیسن کی جانب سے پھینکی گئی گیند کو واپس ان کی طرف کھیلا تو وہ مومینٹم کی وجہ سے کریز سے باہر آگئے تھے۔

ایسے میں بالر نے گیند کو وکٹ کی جانب پھینکا جس نے جب وکٹ کو ہٹ کیا تو انضمام الحق کا پاؤں کریز سے باہر تھا اور یوں انہیں قوانین کی رو سے آؤٹ دے دیا گیا۔

ایک ہی سال بعد روایتی حریف بھارت کے خلاف پشاور میں کھیلے گئے ون ڈے میچ میں جب انہوں نے فیلڈر سریش رائنا کی جانب سے پھینکی گئی ایک ایسی ہی تھرو کو بلے سے روکا تو امپائر نے انہیں آبسٹرکنٹنگ دی فیلڈ آؤٹ دے دیا گیا جس پر وہ بے حد ناراض بھی ہوئے تھے۔

انضمام الحق اپنے کریئر کے دوران کئی مواقع پر رن آؤٹ ہوئے۔


اگر موجودہ کرکٹرز کی بات کی جائے تو سابق کپتان اظہر علی کی سن 2018 کے ابوظہبی ٹیسٹ کا رن آؤٹ سب کو یاد ہے جس میں انہوں نے یہ تعین کیے بغیر کہ گیند نے باؤنڈری پار کی یا نہیں، یا وہ ڈیڈ ہوئی بھی ہے۔ساتھی کھلاڑی اسد شفیق سے گفت و شنید شروع کردی تھی۔



ایسے میں آسٹریلوی فیلڈرز نے فائدہ اٹھاتے ہوئے گیند وکٹ کیپر کی جانب پھینکی جس نے 64 رنز بنانے والے اظہر علی کو واپس پویلین بھیجنے میں دیر نہیں کی۔ اس میچ میں فاسٹ بالر محمد عباس کی شان دار بالنگ کی وجہ سے پاکستان نے کامیابی تو حاصل کی، لیکن اظہر علی کی قانون سے لاعلمی کو کوئی نہیں بھولا۔

'پاکستان میں انفراسٹرکچر کی کمی کی وجہ سے کھلاڑی قوانین سے ناواقف ہی رہتے ہیں'

سابق ٹیسٹ کرکٹر ہارون رشید کا شمار ان کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے مایہ ناز بلے باز یونس خان جیسے کئی کھلاڑیوں کو انٹرنیشنل کرکٹ کے لیے تیار کیا، بطور کوچ اور مینیجر وہ کئی مرتبہ قومی ٹیم کے ساتھ جڑے رہے جب کہ کئی سال تک کرکٹ بورڈ کے ساتھ بطور آفیشل منسلک رہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے پاکستان میں کسی بھی اسپورٹس میں انفراسٹرکچر کے نہ ہونے کو قوانین سے لاعلمی یا ان میں عدم دلچسپی کا ذمہ دار قرار دیا۔



ہارون رشید کے خیال میں پاکستان ٹیم کی آن فیلڈ بوکھلاہٹ کے پیچھے کئی وجوہات ہیں جن کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسپورٹس کلچر کو جب فروغ ہی نہیں دیا جائے تو کرکٹ ہو یاکوئی بھی کھیل، اس قسم کے واقعات ہوتے رہیں گے۔

اُن کے بقول دنیا بھر میں گراس روٹ لیول پر کھلاڑیوں کو ہر قسم کی بنیادی تربیت دی جاتی۔ لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا، کچھ کھلاڑیوں کو قوانین کا پتا ہوتا ہے لیکن زیادہ تر کو اس وقت 'رولز اینڈ ریگولیشن ' کے بارے میں آگاہی ہوتی ہے جب وہ نیشنل لیول پر آتے ہیں ۔ '

ان کے خیال میں وراٹ کوہلی والا واقعہ اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ تھا۔ اس لیے پاکستان کھلاڑی بوکھلائے ہوئے نظر آئے، اگر ایسا انٹرنیشنل کرکٹ میں پہلے ہوچکا ہوتا تو ان کا ردِعمل مختلف ہوتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ کوہلی قانون سے واقف تھے اس لیے فر ی ہٹ پر بولڈ ہونے کے باوجود وہ بھاگتے رہے جب کہ پاکستانی سمجھتے رہے کہ ڈیڈ بال ہو چکی ہے۔


ہارون رشید کے بقول 'کسی بھی قانون میں بہت ساری چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کی تشریح اسی وقت پتا چلتی ہے جب وہ اپلائی ہوتا ہے۔ وراٹ کوہلی کے فری ہٹ پر تین رنز بنانے کے بعد ہی مخالف ٹیم کو اس قانون کی کمی بیشی کا پتا چلا۔ '

انہوں نے کہا کہ اگر فری ہٹ پر کیچ ہی کے قانون کو مثال بناکر دیکھا جائے تو جتنی دیر بال ہوا میں رہتی ہے، بلے باز رنز بناتا رہتا ہے جب تک کہ کیچ نہ پکڑ لیا جائے۔

ان کے بقول ہو سکتا ہے کہ کوہلی والے واقعے کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ کونسل اس قانون کی تشریح کرے اور واضح کرے کہ گیند کو کب ڈیڈ قرار دیا جائے گی۔


ان کا مزید کہنا تھا کہ تھوڑی سی قوانین سے آگاہی کبھی کبھی بہت کام آتی ہے، کھلاڑیوں کو ایسے رولز کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے جس سے میچ کا نتیجہ تبدیل ہوسکتا ہے۔بھارتی ٹیم پریشر میچ میں بوکھلاہٹ کا شکار نہیں ہوئی جب کہ پاکستان ٹیم ہوگئی ، یوں بھارت نے ایونٹ کا آغاز کامیابی اور پاکستان نے شکست سے کیا۔

'یہاں تو مینیجرز اور کوچز کو بھی رولز کا نہیں پتا ہوتا'

'پاکستان کرکٹ بورڈ نے گزشتہ کچھ برسوں میں تو کھلاڑیوں کو قوانین سے آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن ابھی اس حوالے سے کام جاری ہے۔' یہ کہنا تھا پاکستان کرکٹ بورڈ سے منسلک ایک میچ ریفری کا جنہوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اس موضوع پر بات کرنے کی ہامی بھری۔

ان کا کہنا تھا کہ قوانین سے لاعلمی پاکستان کا 'کلچرل ' مسئلہ ہے جس کے پیچھے کئی محرکات ہیں جن میں تعلیم کی کمی سرفہرست ہے۔ انہوں نے کہا کہ موٹے موٹے قوانین تو کھلاڑیوں کو معلوم ہوتے ہیں، لیکن جو قوانین اہم ہوسکتے ہیں اس کے بارے میں ان کو علم ہی نہیں ہوتا۔

'فرسٹ کلاس اور ڈومیسٹک کرکٹ میں میچ ریفری کے آنے سے کھلاڑیوں کو قوانین کے بارے میں آگاہی کی کوشش تو کی جارہی ہے، لیکن جب مینیجرز اور کوچز کو خود بہت سارے قوانین کا علم نہیں ہوگا، تو وہ کھلاڑیوں کو کیسے بتائیں گے۔'

انہوں نے بھارت کے خلاف میچ میں ہونے والے واقعے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس میں کھلاڑیوں کو قصوروار نہیں قرار دیتے، پاکستان کی جگہ جو دوسری ٹیم بھی ہوتی، ان کا ردِعمل بھی شاید ایسا ہی ہوتا۔

'اُن کے بقول "اس دن کے واقعے پر میں فیلڈنگ سائیڈ کو اس لیے تھوڑا سا مارجن دوں گا کیوں کہ اس قانون کے بارے میں بہت سارے لوگوں کو معلوم نہیں تھا، ایسے قوانین اور پلیئنگ کنڈیشنز کی ایسی شقوں کی تشریح اسی وقت ہوتی ہے جب وہ سامنے ہوجاتے ہیں، بھارت کے خلاف میچ میں بھی ایسا ہی ہوا ۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ کرکٹ بورڈ میں اب ماحول بدل رہا ہے، لیکن ابھی بھی بہت کچھ کرنے کی گنجائش باقی ہے۔ ان کے بقول جب قومی ٹیم کے کھلاڑی فرسٹ کلاس کھیل رہے ہوتے ہیں، تو مینیجر اورکوچز کی ہمت ہی نہیں ہوتی کہ انہیں قوانین سمجھائیں، اس ڈر کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔




ہارون رشید کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب وہ بورڈ کے ساتھ تھے، تو ان کی کوشش ہوتی تھی کہ ٹریننگ پروگراموں میں جب کھلاڑی اکٹھے ہوتے تھے، تو انہیں رولز پر ٹریننگ دینے کے لیے امپائرز کو مدعو کیا جائے۔

اُن کے خیال میں پی سی بی کے ہائی پرفامنس سینٹر میں بھی رولز اور کوڈ آف کنڈکٹ پر بات ہونی چاہیے اور کھلاڑیوں کو اس کی تعلیم بھی دینی چاہیے۔


پاکستان ٹیم اپنا اگلا میچ اتوار کو نیدرلینڈز کے خلاف اسی میدان میں کھیلے گی جہاں اسے زمبابوے نے شکست دی تھی، اسی دن گروپ ٹو کے دو اور میچ کھیلے جائیں گے جس میں سے ایک میں بنگلہ دیش کی ٹیم زمبابوے کے مدمقابل ہو گی۔ دوسرے میں بھارت اور جنوبی افریقہ کی ٹیمیں آمنے سامنے ہوں گی۔