پاکستان میں خواتین پر تشدد سے متعلق حال ہی میں منظرعام پر آنے والے اعداد شمار سے متعلق سماجی امور کے ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے سنگین معاشرتی مسئلہ قرار دیا ہے۔
قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین برسوں کے دوران خواتین پر تشدد کے 63 ہزار سے زائد واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں گھریلو تشدد، جنسی زیادتی اور قتل کے واقعات شامل ہیں۔
سماجی امور کے ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ اعدادو شمار خواتین کے خلاف تشدد کے رجحان کی مکمل عکاسی نہیں کرتے کیوں کہ بعض خواتین کے ساتھ گھر کی چاردیواری کے اندر ہونے والے تشدد کے واقعات کم ہی منظرِ عام پر آتے ہیں۔
انسانی حقوق کے وزیر ریاض حسین پیرزادہ نے گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی کو تحریری طور پربتایا تھا کہ ملک بھر میں تین برسوں کے دورران خواتین پر تشدد کے اعدوشمار وفاقی اور پولیس کے صوبائی محکموں نے فراہم کیے ہیں۔پولیس کے مطابق ان واقعات میں ملوث افراد کے خلاف قانون کے مطابق مقدمات درج کرکے کاروائی کی گئی ہے۔
ریاض پیرزادہ کا کہنا تھا کہ پورے ملک سے موصول ہونے والی معلومات کے مطابق 2019، 2020 اور 2021 میں مجموعی طور پر خواتین کے ساتھ زیادتی اور اجتماعی زیادتی کے 11 ہزار سے زائد کیس درج کیے گئےتھے۔اس عرصے میں خواتین کے قتل کے لگ بھگ چار ہزار اور غیرت کے نام پر قتل کے ایک ہزار سے زائد واقعات ہوئے۔
پاکستان میں خواتین پرتشدد کے واقعات کی روک تھام کے لیے کئی قوانین موجود ہیں لیکن ان پر مؤثرعمل درآمد ایک بڑا چیلنج رہا ہے۔
خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خواتین پر تشدد کے واقعات انتہائی تشویش ناک امر ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
رواں سال جولائی میں عالمی اقتصادی فورم کےجاری کردہ انڈیکس کے مطابق پاکستان میں صنفی تفریق کی صورتِ حال نہایت مخدوش ہے۔
صنفی تفریق سے متعلق جاری کی گئی اس درجہ بندی میں شامل 146 ممالک میں پاکستان 145 جب کہ افغانستان سب سے آخری 146 ویں درجے پر ہے۔
اسباب کیا ہیں؟
انسانی حقوق کے کارکنوں اور سماجی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خواتین پر تشدد کے کئی سماجی، اقتصادی اور ثقافتی اسباب ہیں۔
وائس چانسلر یونیورسٹی آف پونچھ، راوالاکوٹ اور سماجیات کے پروفیسر ڈاکٹر محمد زکریا کا کہنا ہے کہ ایسے مرد گھریلو تشدد کرتے ہیں جو اسے خواتین کو کنٹرول کرنے کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔
ڈاکٹر زکریا کا کہنا ہے کہ خواتین پر تشدد کے اعداد شمار ان واقعات کی مکمل عکاسی نہیں کرتے۔ اکثر تشدد کے واقعات پولیس کو رپورٹ نہیں کیے جاتے ہیں۔ سماجی سطح پر بھی ایسے واقعات کی شکایت درج کرانے یا خواتین کے ساتھ گھریلو سطح پر ہونے والی بدسلوکی کو منظرعام پر لانے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
اگرچہ خواتین کے خلاف ہونے والے گھریلو تشدد کے تازہ ترین اعدادوشمار سامنے نہیں آئے ہیں البتہ پاکستان کی وزارتِ صحت کے 2017 اور 2018 میں کرائے گئے ’پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے‘ کے مطابق 28 فی صد خواتین کو 15 سال کی عمر سے کسی نہ کسی مرحلے پر جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔
’تشدد کا رجحان بڑھا ہے‘
انسانی حقوق کی کارکن فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ پاکستان میں عمومی طور پر تشدد میں اضافہ ہورہا ہے اورایک بیگانگی کا رویہ پروان چڑ ھ رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں نہ صرف عورتوں بلکہ بچوں اور معاشرے کے محروم طبقات کے خلاف بھی تشدد کا رجحان بڑھا ہے۔ اسی لیے صنف کی بنیاد پر بھی تشدد میں اضافہ ہورہا ہے۔
فرزانہ باری کے مطابق جب تک ملک میں صنفی عدم مساوات ہے اور معاشرے میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو سماجی اور ثقافتی طور پر کم تر سمجھنے کی پدرشاہی سوچ موجود ہے خواتین پر تشدد کے اس رجحان کی روک تھام نہیں ہو گی۔
ان کے بقول، پاکستان میں عورتوں کی اکثریت گھر کے اندر ہوں یا باہر، بااختیار نہیں بن سکی ہیں کیوں کہ ان کی شناخت کسی مرد سے جڑی ہوئی ہے۔
فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ خواتین کو تعلیم اور اختیارات دے کر بااعتماد شہری بنایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح وہ اپنے حقوق کا تحفظ خود کرنے کے قابل ہوں گی۔ خواتین پر تشدد کی روک تھام کے لیے قوانین پر عمل درآمد اور پولیس کی استعدادِ کار بڑھانے کی ضرورت ہے۔