امریکہ میں نئے امریکی شہریوں کے لئے حلف برداری کی تقریب کا موقع ایک نہایت یادگار لمحہ ہوتا ہے۔ وہ برسوں اس کے لئے جتن کرتے ہیں اور اس بات کے متمنی ہوتے ہیں کہ انھیں امریکہ کی باضابطہ شہریت حاصل ہوجائے۔
ان میں بہت سے وہ لوگ ہوتے ہیں جو نہایت نامساعد حالات میں اپنے آبائی وطن کو چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں اور پناہ لینے کے لئے نئی جگہ کی تلاش میں سرگرداں ہوتے ہیں۔
ایسے لوگوں میں لاکھوں کی تعداد میں وہ شامل ہیں جو دنیا کے مختلف علاقوں، خاص کر مشرق وسطیٰ میں خانہ جنگی اور جنگ و جدل کی وجہ سے اپنا گھر بار لٹانے اور جانی نقصان اٹھانے کے بعد در بدر ہوگئے ہیں۔ ان میں سے بہت سے بے خانماں افراد نے جن میں عورتیں اور بچے شامل ہیں، امریکہ کا بھی رخ کیا ہے۔
نئے امریکی شہریوں کے لئے حلف برداری کی تقریب جو لاس اینجلس میں منعقد ہوتی ہے، وہ امریکہ میں سب سے بڑی شمار کی جاتی ہے۔
کرونا کی عالمی وبا نے، جہاں زندگی کے تمام شعبوں کو متاثر کیا ہے اور بدستور اس کی تباہ کاریاں جاری ہیں، امریکی شہریت کے لئے حلف برداری کی تقریبات بھی اس سے متثنیٰ نہیں ہیں۔ وائرس کے پھیلاؤ کے خطرات کی وجہ سے تارکین وطن کے دفاتر کو ایسی تقریبات ملتوی کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔
لاس اینجلس میں بھی بڑی تعداد میں حلف اٹھانے والے شہری ان تقریبات کی رونقوں سے محروم ہوگئے۔ لیکن حلف برداری تو بہرحال ہونی تھی اور اس کی ایسی ترکیب نکالی گئی ہے کہ لوگوں کو اپنی کاروں سے نکلے بغیر حلف برداری کی سہولتیں حاصل ہوگئی ہیں۔
ماجد ان لوگوں میں شامل ہیں جو لاٹری میں اپنا نام نکلنے کے بعد دو ہزار بارہ میں ایران سے امریکہ آئے۔ ان کا کہنا ہے کہ نئی زبان سیکھنا اور نئی ثقافت کو اپنانا ان کے لئےآسان نہیں تھا، لیکن آٹھ سال بعد جب انھیں شہریت کا پروانہ ملا تو ان کی ساری پریشانی دور ہوگئی۔
ماجد کہتے ہیں کہ وہ لاس اینجلس میں ایک رنگا رنگ تقریب کے منتظر تھے لیکن انھیں ایسا لگا کہ وہ حلف برداری کے لئے نہیں بلکہ میکڈونلڈ سے خریداری کے لئے ڈرائیو تھرو کی قطار میں کھڑے ہیں۔ تاہم وہ بتاتے ہیں کہ وہ نہایت خوش تھے۔
شہریت اختیار کرنے والوں سے کہا گیا تھا کہ وہ ایک خاص پارکنگ لاٹ میں آکر ایک مخصوص فریکوینسی پر اپنا ریڈیو لگائیں جہاں سے وہ امریکی صدر کا پیغام اور قومی ترانہ سن سکتے تھے جس کے بعد ایک سرکاری اہل کار ان سے چند سوالات پوچھتا پھر وہ حلف اٹھاتے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سارے مرحلے میں نئے امریکی شہری اپنی اپنی کاروں میں ہی بیٹھے رہے۔ نئے شہریوں نے پرجوش انداز میں بتایا کہ یہ ایک نہایت انوکھا تجربہ تھا جو ہمیشہ ان کی یادوں میں محفوظ رہے گا۔
حلف برداری کی ڈرائیو تھرو تقریبات کا سلسلہ جون کے وسط سے شروع کیا گیا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر نئی شہریت پانے والے ڈھائی سے سو سے زیادہ لوگ پارکنگ لاٹ میں آتے ہیں اور دس منٹ سے بھی کم وقت میں شہریت کا پروانہ لے کر خوشی کے جذبات سے مغلوب اپنے گھروں کو واپس جاتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں، جب کوووڈ نانٹین نے اپنا بھیانک سایہ ڈال رکھا ہے، انھیں تمام لوگوں کی سلامتی اور تحفظ کا بخوبی احساس ہے اور یہ دلچسپ تجربہ ان کے لئے یقیناً ایک قیمتی سرمایہ ہے، جب نیلے امریکی پاسپورٹ کی صورت میں انھیں گویا اپنے خوابوں کی تعمیر مل جائے گی۔